crime free city 2

یہ بھی ایک لائف اسٹائل ہے

تحریر : جاوید چوہدری

میں 20 سال قبل ٹریننگ اور سیلف ہیلپ کے بزنس میں آیا اور پرسنل ٹریننگز شروع کر دیں‘ بھابڑا بازار کا ایک بزرگ میرا پہلا کلائنٹ تھا‘ وہ شیخ برادری سے تعلق رکھتا تھا‘ پوری زندگی محنت اور مشقت میں گزار دی‘ دو بیٹے تھے‘ دونوں شادی شدہ اور خودمختار تھے‘ بیگم کا انتقال ہو چکا تھا۔

یاردوست اور عزیز رشتے دار تھے نہیں‘ بزرگ کی کوئی ایکٹویٹی‘ کوئی تفریح اور زندگی کے ساتھ کوئی دل چسپی بھی نہیں تھی لہٰذا وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہو گیا‘ وہ سارا سارا دن گلیوں اور بازاروں میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا‘ سڑک پر بندر کا تماشا لگتا تھا تو بزرگ دو دو گھنٹے وہاں کھڑے رہتے تھے اور بچے انھیں تلاش کرتے رہتے تھے‘ میرے قاری تھے‘ یہ ان کی زندگی کی واحد ایکٹویٹی تھی‘ میں نے سیلف ہیلپ کے بارے میں لکھنا شروع کیا تو ان کا بڑا بیٹا ایک دن انھیں میرے پاس لے آیا‘ اس کا کہنا تھا ’’ یہ آپ کی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔

آپ انھیں سمجھائیں‘‘ میں نے انھیں آدھے دن کے لیے اپنے پاس رکھ لیا‘ ان کی ساری کہانی سنی‘ وہ ایک لوئر مڈل کلاس شخص کی مشقت اور حسرتوں سے لتھڑی عام سی کہانی تھی‘ بچپن میں والد کا انتقال ہو گیا‘ تعلیمی سلسلہ درمیان میں رک گیا‘ غلہ منڈی میں لوڈر کا کام کیا‘ بہن بھائی پالے‘ سبزی منڈی میں بیوپار کیا‘ کام یاب ہو گئے‘ جی بھر کر پیسے کمائے‘ بیوی اور بچے پالتے رہے‘ بچے بڑے ہوئے‘ شادی کی اور وہ اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو گئے اور آخر میں بیوی کا انتقال ہو گیا تو یہ خود کو اکیلا محسوس کرنے لگے۔

میں نے یہ ساری کہانی سننے کے بعد ان سے دو سوال کیے‘ ایک‘ آپ کے پاس کتنی دولت ہے اور دوسرا وہ کون سا کام تھا جو آپ پوری زندگی کرنا چاہتے تھے لیکن اب تک نہیں کر سکے؟ ان کا پہلا جواب تھا میرے پاس زیادہ رقم نہیں ہے‘ میں نے اپنی دولت بیٹوں میں تقسیم کر دی ہے‘ انھیں دکانیں اور گھر بنا دیے ہیں۔

میرے پاس اب صرف دس مرلے کا گھر بچا ہے اور گزارے کے پیسے ہیں‘ میں نے پوچھا ‘آپ کے گھر کی مالیت کتنی ہے؟ وہ اطمینان سے بولے ’’دو ماہ قبل اس کے دس کروڑ روپے مل رہے تھے‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’دس کروڑ روپے دس مرلے کے گھر کے ؟‘‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ 2000 کی بات تھی اور اس زمانے میں دس کروڑ روپے بہت بڑی رقم ہوتی تھی‘ اسلام آباد کے پوش سیکٹرز میں دو کروڑ روپے میں ڈیڑھ کنال کا گھر مل جاتا تھا‘ وہ ہنس کر بولے‘ میرا گھر کمرشل ایریا میں آ گیا ہے‘ پوری گلی میں دکانیں بن چکی ہیں۔

صرف میرا گھر بچا ہے لہٰذا یہ ٹھیک ٹھاک مہنگا ہے‘ میں نے لمبا سانس لیا اور اس کے بعد ان سے دوسرے سوال کا جواب مانگا‘ وہ شرما کر بولے‘ میں جوانی میں ایک بار لاہور کے ہلٹن ہوٹل میں گیا تھا‘ اس کی صفائی‘ سروس اور خوب صورتی میرے دل میں کھب گئی‘ میں کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں دو تین دن رہنا چاہتا ہوں‘ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے‘ میری ہنسی نکل گئی۔

میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کی زندگی میں کوئی ذمے داری باقی ہے‘‘ وہ آہ بھر کر بولے ’’ہرگز نہیں‘ میں سب سے فارغ ہو گیا ہوں‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ میرے مشورے پر عمل کریں گے‘‘ وہ خوش دلی سے بولے ’’سو فیصد‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ پھر اپنا مکان بیچ دیں‘ پیسوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیں‘ ایک حصے سے کوئی کمرشل بلڈنگ خرید لیں اور اسے کرائے پر دے دیں۔

باقی دونوں حصوں کو دو مختلف بینکوں میں رکھیں اور خود پوری زندگی کے لیے فائیو اسٹار ہوٹل میں شفٹ ہو جائیں‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے اور بولے ’’کیا یہ ممکن ہے‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’سو فیصد‘‘ وہ بولے ’’آپ اپنی ان تینوں تجاویز کو ذرا ایکسپلین کر دیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں آخری تجویز سے اسٹارٹ کرتا ہوں‘ آپ جب فائیواسٹار ہوٹل سے پیکیج ڈیل کریں گے تو یہ آپ کے ساتھ دس ہزار روپے روزانہ کے حساب سے ڈیل کر لیں گے‘ یہ رقم ماہانہ تین لاکھ روپے اور سالانہ 36 لاکھ روپے بنتی ہے۔

ہم اگر 36 لاکھ کو دس سے ضرب دیں تو یہ تین کروڑ 60 لاکھ روپے بنیں گے اور یہ آپ کے مکان کی مالیت کا 36فیصدہو گا‘ آپ گویا اپنی دولت کے 36فیصد میں دس سال فائیو اسٹار ہوٹل میں رہ سکتے ہیں‘ آپ کی عمر اس وقت 66 سال ہے‘ آپ دس سال بعد 76 سال کے ہوں گے‘ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر دے‘ آپ اس کے بعد اگلے دس سال دوسرے اکاؤنٹ سے ادائیگی کریں اور 86 سال کی عمر تک فائیو اسٹار ہوٹل میں رہیں‘ اللہ نے اگر آپ کو مزید مہلت دی تو ہمارے پاس ایک کمرشل پراپرٹی ہو گی۔

اس کی مالیت بھی اس وقت تک کم از کم دس کروڑ ہو چکی ہو گی اور ہم اس رقم سے مزید بیس تیس سال فائیواسٹارہوٹل میں رہ لیں گے‘‘ وہ بے چینی سے کرسی پر تڑپے اور پوچھا ’’کیا ہوٹل مجھے پوری زندگی دس ہزار روپے میں کمرہ دے دے گا‘ اس کے ریٹس بھی تو بڑھیں گے‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’ہاں بڑھیں گے لیکن میں نے پہلے مشورے میں آپ کوبتایا تھا ہم گھرکی رقم کے ایک حصے سے کمرشل پراپرٹی خریدیں گے اور اسے کرائے پر دے دیں گے۔

اس پراپرٹی کا کرایہ ہوٹل کی پے منٹ کو بیلنس کرے گا جب کہ میں نے دوسرے حصے میں آپ کو مشورہ دیا آپ رقم کے دو حصے دو مختلف بینکوں میں رکھیں‘ آپ کا سوال ہونا چاہیے دو مختلف بینکوں میں کیوں؟ کیوں کہ اگر خدانخواستہ کوئی ایک بینک ڈیفالٹ کر جائے تو بھی ہمارے پاس آدھی رقم بچی رہے گی‘ ہمارا لائف اسٹائل ڈسٹرب نہیں ہوگا‘‘وہ تھوڑی دیر سوچتے رہے اور پھر بولے ’’کیا یہ میرے بچوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی؟ میرا مکان میرے بچوں کی امانت ہے‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’شیخ صاحب آپ کے بچے جوان اور خودمختار ہیں۔

یہ اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں‘ اپنا کام کر رہے ہیں‘ ان کو آپ کا مکان نہیں چاہیے اور اگر چاہیے بھی تو بھی ان کااس پر کوئی حق نہیں بنتا‘ آپ نے ان کی پرورش کی‘ تعلیم دلائی‘ برسرروزگار کیا اور شادیاں کرا دیں‘ اب ان کا فرض ہے یہ اپنی اور اپنے خاندان کی ذمے داری اٹھائیں‘ دوسرا آج آپ کے مکان کی مالیت دس کروڑ روپے ہے‘ آپ فائیو اسٹار ہوٹل میں بھرپور زندگی گزارنے کے بعد بھی ان کے لیے دس کروڑ روپے کی کمرشل پراپرٹی چھوڑ جائیں گے‘ آپ ان کا حق نہیں ماریں گے‘ آپ انھیں حق سے زیادہ دے کر جائیں گے‘‘ شیخ صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ وہ اٹھے اور مجھے گلے لگا لیا۔

شیخ صاحب نے میرے مشورے پر عمل کیا‘ اپنا گھر دس کروڑ 80 لاکھ روپے میں فروخت کر دیا‘ صدر میں چار کروڑ روپے کا پلازہ خریدا اور کرائے پر چڑھا دیا‘ چھ کروڑ اسی لاکھ روپے بچ گئے‘ تین کروڑ 40 لاکھ روپے ایک بینک اور دوسری رقم دوسرے بینک میں جمع کرا دی‘ ہوٹل کے ساتھ ان کی ساڑھے نو ہزار روپے ڈیلی کی ڈیل ہو گئی‘ اس رقم میں تمام سروسز شامل تھیں‘ وہ ہوٹل میں شفٹ ہوئے اور بادشاہوں جیسی زندگی گزارنے لگے۔

کمرہ اور باتھ روم ہر وقت صاف‘ ناشتہ اور کھانا اعلیٰ‘ جم اور سوئمنگ پول کی سہولت ‘ ڈاکٹرز 24 گھنٹے دستیاب اور ہفتے میں دو دن مساج اور اسٹیم باتھ اور سوانا روزانہ‘ شیخ صاحب دوبارہ جوان ہو گئے‘ وہ ہوٹل میں ہونے والے تمام سیمینارز‘ ورکشاپس اور کانفرنسز بھی اٹینڈ کرتے تھے اور ملک کے تمام بڑے اور مشہور لوگوں سے بھی ملتے تھے‘ ان سے کوئی کھلاڑی بچا‘ ایکٹر اور نہ ہی سیاست دان‘ وہ سب سے ملے اور تصویریں بھی بنوائیں‘ سال بعد انھوں نے اپنا اسٹائل بدل لیا‘ وہ چھ ماہ کے لیے کراچی کے ہوٹل میں شفٹ ہو گئے‘ اگلے چھ ماہ لاہور رہے اور پھر چھ ماہ کے لیے دوبارہ راولپنڈی آ گئے‘ گاڑی اور لانڈری ہوٹل کی استعمال کرتے تھے‘ دو برسوں میں پلازے کا کرایہ بھی اکٹھا ہو گیا۔

شیخ صاحب نے اس سے دوبئی میں ہوٹل بک کرایا‘ فرسٹ کلاس میں سفر کر کے دوبئی گئے اور چھ ماہ دوبئی گزار کر واپس آ گئے‘ میں ان سے ملنے جاتا تھا تو وہ مجھے سینے سے لگا کر رونے لگتے تھے اور بار بار کہتے تھے ’’تم میرے محسن ہو‘ تم نے بھابڑا بازار کے مزدور کو بادشاہ بنا دیا‘ میں جانتا ہی نہیں تھا میں اتنا امیر ہوں اور میں اپنی رقم سے کیسی شان دار زندگی گزار سکتا ہوں‘‘وہ کہا کرتے تھے ’’میں اگر بھابڑا بازار میں رہتا تو کبھی کسی سیاست دان‘ کھلاڑی اور اداکار سے ملاقات ہو سکتی تھی اور نہ ہی میں زندگی کی اصل مسرتیں حاصل کر سکتا‘ میرا مکان اگر اس دوران 50 کروڑ روپے کا ہو جاتا تو بھی مجھے کیا فائدہ ہوتا؟ میں تو گلیوں میں رُل کر ختم ہو گیا ہوتا‘‘ میری آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے تھے‘ شیخ صاحب ساڑھے چھ سال فائیو اسٹار ہوٹلوں میں رہ کر 2006میں فوت ہو گئے۔

انتقال کے بعد ان کے اثاثوں کا تخمینہ لگایا گیا تو ان کا کمرشل پلازہ ساڑھے تیرہ کروڑ روپے کا ہو چکا تھا اور ان کے اکاؤنٹ میں اس وقت بھی سوا کروڑ روپے تھے‘ میں نے ان کا آخری دیدار کیا‘ ان کے چہرے پر اطمینان بھی تھا اور مسکراہٹ بھی‘ مجھے محسوس ہوا جیسے وہ کہہ رہے ہوں‘ یہ بھی تو ایک لائف اسٹائل ہے‘ انسان مزدور کی زندگی گزارے اور آخر میں بادشاہ بن کر دنیا سے رخصت ہو‘ انسان کی کوئی خواہش ادھوری نہ رہے۔ (بشکریہ ایکسپریس نیوز)

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں