تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، کراچی میں یہ فقرہ بہت مشہور ہے”یعنی کچھ بھی“۔۔ اس کی شہرت کی وجہ بھی بہت خاص ہے، اگر آپ کسی سے بات کررہے ہیں اور وہ اچانک کوئی ایسی بات کہہ دے، جس پر آپ کو بالکل بھی یقین نہ ہو اور وہ بات آپ کے اوپر سے گزر جائے تو پھر غصے میں کہتے ہیں۔۔یعنی کچھ بھی؟؟۔۔ بس تو آج چونکہ چھٹی والا دن ہے، اس لئے آپ ہماری تحریر کو پڑھ کر لازمی بولیں گے یعنی کہ کچھ بھی۔۔کیونکہ آج ہمارا کچھ پتہ نہیں، ہم کچھ بھی لکھ سکتے ہیں۔۔
ایک وکیل صاحب نے ساری عمر وکالت کی اور جب بڑی عمر کے پیش نظر وکالت سے دستبرداری اختیار کی تو اپنے سارے مقدمات اپنے بیٹے کو دیئے جو کہ اب خود بھی ایک نامور وکیل بن چکا تھا۔ چند ماہ بعد بیٹے نے ایک مقدمے کی فائل والد کے سامنے پیش کی اور کہا کہ آپ ساری عمر یہ مقدمہ لڑتے رہے مگر مقدمہ نہ جیت سکے اور میں نے چھ ماہ میں ہی یہ مقدمہ جیت لیا۔ والد نے ایک اچٹتی ہوئی نظر فائل پر ڈالی اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ بیٹے کو بہت غصہ آیا تو اس نے کہا اگر آپ اپنی ناکامی کا اعتراف نہیں کر سکتے تو کم از کم مجھے میری کامیابی پر مبارکباد تو دے ہی سکتے ہیں۔۔ والد نے سر اٹھا کر بیٹے کی طرف دیکھا اور کہا ۔۔تم بیوقوف ہو۔۔ تم سب بھائی بہنوں کو میں نے اس مقدمے سے پڑھایا لکھایا اور میں نے یہ مقدمہ تمھیں تمھارے بچوں کیلئے دیا تھا اور تم نے خود ہی اپنی آمدنی کا ذریعہ بند کردیا تو بتاو¶ میں تمھیں بیوقوف نہ کہوں تو پھر کیا کہوں۔۔واقعہ کی دُم: ہمارے سیاست دان بھی وکیل کے ابا کی طرح ہیں،پچھتر سال سے وہی بنیادی مسائل عوام کو درپیش ہیں، کوئی انہیں حل نہیںکرتا، سب کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوتا ہے۔۔
رات کو دو بجے کچھ گرنے سے عورت کی آنکھ کھلی تو دیکھا چار نقاب پوش ڈاکو پستول تانے موجود تھے۔۔شوہرکا ہاتھ پیر باندھ دیئے اور بچوں کو ڈرائنگ روم میں بند کر دیا۔۔تمام الماریوں کی تلاشی کے بعد اچھی خاصی نقدی اور زیورات بھی ڈاکووں کے ہاتھ لگے۔۔پھر ایک ڈاکو کہنے لگا۔۔ امریکا سے سوا لاکھ کا آئی فون کہاں ہے جو تیرے بھائی نے بھیجا تھا؟اور وہ ہیروں کا ہار جو تیرے شوہر نے تجھے گفٹ کیا تھا وہ بھی جلدی نکالو ورنہ گولی مار دونگا۔۔عورت نے حیرت سے ڈاکووں کو دیکھا اور پوچھا۔۔لیکن آپ کو یہ سب کیسے پتہ؟؟۔۔ ایک ڈاکو مسکرا کر بولا۔۔ہم سب تمہارے فیس بُک فرینڈ ہیں ،اور جو تم نے صبح حلوا بنایا تھا اگر بچا ہو تو وہ بھی کھا کر جائیں گے ۔۔واقعہ کی دُم: سوشل میڈیا ” شوآف“ کے لئے نہیں ہوتا، جس طرح سے سوشل میڈیا پر ہم دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے چیزیں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اس سے گریز کرنا چاہیئے، ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک منع کیا ہے کہ اگر آپ نے اپنے گھر میں پھل کھائے ہیں تو اس کے چھلکے باہر دروازے پر نہ پھینکیں، کہیں پڑوسی کے بچوں کا دل وہ چھلکے دیکھ کر خراب نہ ہو اور وہ اپنے والدین سے پھلوں کی فرمائش کردیں جو وہ خریدنے کی شاید استطاعت نہ رکھتے ہوں۔۔ایک صاحب نے اپنی بیوی کے انتقال کے بعد اس کی قبر پر یہ لکھوایا۔۔میری روشنی بجھ گئی۔۔کچھ عرصہ بعد ان صاحب نے دوسری شادی کر لی۔ دوست نے کہا ۔۔اب تو اپنی پہلی بیوی کی قبر سے یہ الفاظ صاف کروا دو۔۔ان صاحب نے جواب دیا ۔۔نہیں ،اس کی ضرورت نہیں، بس نیچے یہ لکھوا دوں گا کہ میں نے دوسری شمع روشن کر لی۔۔
ایک دن ایک حکمران محل میں بیٹھا ہوا تھا۔۔جب اس نے محل کے باہر ایک سیب فروش کو آواز لگاتے ہوئے سنا۔۔سیب خریدیں! سیب!۔۔حاکم نے باہر دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اپنے گدھے پرلال سرخ سیب لادے بازار جا رہا ہے۔حکمران نے سیب کی خواہش کی اور اپنے وزیر سے کہا۔۔ خزانے سے 5 سونے کے سکے لے لو اور میرے لیے ایک سیب لاو¶۔۔وزیر نے خزانے سے 5 سونے کے سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا۔۔ یہ 4 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔۔معاون وزیر نے محل کے منتظم کو بلایا اور کہا۔۔ سونے کے یہ 3 سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔۔۔محل کے منتظم نے محل کے چوکیداری منتظم کو بلایا اور کہا۔۔یہ 2 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔۔چوکیداری کے منتظم نے گیٹ سپاہی کو بلایا اور کہا۔یہ 1 سونے کا سکہ لے لو اور ایک سیب لاو¶۔۔سپاہی سیب والے کے پیچھے گیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کہا۔۔دیہاتی انسان! تم اتنا شور کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں پتا کہ یہ مملکت کے بادشاہ کا محل ہے اور تم نے دل دہلا دینے والی آوازوں سے بادشاہ کی نیند میں خلل ڈالا ہے،اب مجھے حکم ہوا ہے کہ تجھ کو قید کر دوں۔۔سیب فروش محل کے سپاہیوں کے قدموں میں گر گیا اور کہا۔۔میں نے غلطی کی ہے جناب!اس گدھے کا بوجھ میری محنت کے ایک سال کا نتیجہ ہے، یہ لے لو، لیکن مجھے قید کرنے سے معاف رکھو!سپاہی نے سارے سیب لیے اور آدھے اپنے پاس رکھے اور باقی اپنے منتظم کو دے دیئے۔اور اس نے اس میں سے آدھے رکھے اور آدھے اوپر کے منتظم کو دے دیئے اور کہا۔۔کہ یہ 1 سونے کے سکے والے سیب ہیں۔افسر نے ان سیبوں کا آدھا حصہ محل کے منتظم کو دیا، اس نے کہاکہ۔۔ ان سیبوں کی قیمت 2 سونے کے سکے ہیں۔محل کے منتظم نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور آدھے وزیر کو دیے اور کہاکہ ۔۔۔ ان سیبوں کی قیمت 3 سونے کے سکے ہیں۔ وزیر نے آدھے سیب اٹھائے اور وزیراعلیٰ کے پاس گیا اور کہاکہ۔۔ ان سیبوں کی قیمت 4 سونے کے سکے ہیں۔وزیر نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور اس طرح صرف پانچ سیب لے کر حکمران کے پاس گیا اور کہاکہ۔۔ یہ 5 سیب ہیں جن کی مالیت 5 سونے کے سکے ہیں۔حاکم نے اپنے آپ سوچا کہ اس کے دور حکومت میں لوگ واقعی امیر اور خوشحال ہیں، کسان نے پانچ سیب پانچ سونے کے سکوں کے عوض فروخت کیے۔ ہر سونے کے سکے کے لیے ایک سیب۔میرے ملک کے لوگ ایک سونے کے سکے کے عوض ایک سیب خریدتے ہیں۔ یعنی وہ امیر ہیں۔اس لیے بہتر ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے اور محل کے خزانے کو بھر دیا جائے۔ اور پھر یوں عوام میں غربت بڑھتی بڑھتی بڑھتی ہی چلی گئی۔۔واقعہ کی دُم: یہ واقعہ فارسی ادب سے ادھار لیاگیا ہے، لیکن ایمانداری سے بتائیں کیا یہ ہمارے ملک کا حال نہیں ہے؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہر ”ایکسکیوز می“ کے پیچھے ایک ”پراں مر“ چھپا ہوتا ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔