تحریر: غلام عباس۔۔
جتنی مشکل ذمہ داری ڈاکٹرز، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہوتی ہے اتنی ہی صحافیوں اور صحافتی اداروں میں کام کرنے والے دوسرے اسٹاف کی ہوتی ہے جس میں کیمرہ مین، ٹیکنیشینز، ڈرائیور آفس میں بیٹھا ایڈیٹوریل، ٹیکنکل، ایڈمن اسٹاف ہوتا ہے۔ جب حالات ناساز ہوتے ہیں اور لوگ گھروں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں تب صحافی گھر سے باہر خطروں سے بچتا اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ 16-17 سال پر محیط اپنے کیریئر میں اپنے باقی ساتھیوں کی طرح مشکل سے مشکل دن میں بھی میں آفس آیا چاہے بارشیں ہو رہی ہوں یا ہیٹ اسٹروک ہو ہڑتالیں ہوں یا 12 مئی جیسا کوئی خونی دن۔ بینظر کی شہادت کے بعد کے خراب حالات ہوں یا حامد میر صاحب پر حملہ کے بعد کے پریشان کن حالات۔ سوات آپریشن کے دنوں ڈی ایس این جی اسٹاف کی موومنٹ کو لاجسٹیکلی یقینی بنانا میری ذمہ داری ہوتی تھی۔ راتوں کو دیر گئے تک سیٹلائٹ انجینیئرز سے کال پر رابطہ رہتا تھا انہیں تسلیاں دیتا اور ذاتی درخواست پر راتوں رات موو کراتا تھا۔ ہمارے رپورٹرز، کیمرامین اور اینجنیئرز جان ہتھیلی پر رکھ کر وادی میں گھوما کرتے تھے۔ میں تو کراچی میں بیٹھا ان سے کوارڈینیٹ کرتا تھا لیکن انہیں ہر نئی جگہ موو کراتے وقت ڈر لگا رہتا تھا کہ سب خیریت ہو۔ پھر ایک دن ہمارے ساتھی موسیٰ خان کی شہادت کی خبر آگئی۔ یہ صدمہ کم نا تھا لیکن اس وقت اہم کام وادی سوات میں موجود جیو کے باقی ٹیم ممبرز کی حفاظت کا تھا۔ خیر خدا خدا کر کے وہ وقت بھی گزر گیا۔ اب آجائیں آج جو صورت حال، یقین مانیں ہمارے بھی گھر والے ہمیں گھر سے نکنلے نہیں دینا چاہتے پر ہم کام کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو آگاہی ہو، خبرلوگوں تک پہنچے اور ہاں یہی ہماری روزی روٹی ہے۔ بس دکھ اس بات کا ہے کہ ہماری خدمات کے جواب میں ہمیں وہ عزت نہیں ملتی۔ ہماری خبروں سے ناراض لوگ ہمیں رشوت خور، بلیک میلر حتیٰ کہ غدار اور پتہ نہیں کیا کیا القابات دیتے ہیں۔(غلام عباس)۔۔
(غلام عباس ہمارے جیوکے دنوں کے اچھے دوست ہیں، آج یہ تحریر جب ان کی فیس بک وال پر دیکھی تو یقین نہ آیا کہ وہ اتنا اچھا لکھنا جانتا ہوگا، انہیں بتائے بغیر یہ تحریر اپنے قارئین کی خدمت میں پیش خدمت ہے، جس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔