hukumraan be bas lagrhe hen

یہاں کرسیاں بڑی،لوگ چھوٹے ہوتے ہیں،ایاز امیر۔۔

سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ایک پرابلم ہمیشہ یہ رہا ہے کہ یہاں جب کرسیاں بڑی ہوتی ہیں ان پر بیٹھے لوگ چھوٹے ہوتے ہیں۔ وقت کے چیلنجوں پر پھر ایسے لوگ پورا نہیں اترتے اور گھاٹا اور نقصان قوم و ملک کا ہوتا ہے۔ ماضی کے نیچے اب لائن کھینچنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی انجینئرنگ ہو گئی اور اُس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اب ایسی انجینئرنگ سے نکلیں اور جن خطرات میں ملک گھرا ہوا ہے اُن کی طرف کچھ توجہ دیں اور دلوں کو صاف کریں۔ دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں ایاز امیر لکھتے ہیں کہ بیک وقت افغانستان اور عراق میں جنگ لڑنا دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کیلئے مشکل ہو گیا تھا۔ جرمنی کو دو محاذوں پر جنگ لڑنی پڑی تو شکست سے دوچار ہوا۔ مگر ہماری کیا بات ہے کہ مختلف محاذوں پر لڑے جا ر ہے ہیں اور کوئی پروا نہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آئے روز حملے ہو رہے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہے اور بلوچستان میں بھی کئی ایسی تنظیمیں ہیں جنہوں نے اعلانِ جنگ کیا ہوا ہے۔ لیکن ہماری حکمت عملیوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ تنظیموں سے زیادہ خطرہ چوہدری پرویز الٰہی‘ صنم جاوید اور عالیہ حمزہ سے ہے۔ قانون کا پورا زور لگتا ہے ان جیسوں کو دبانے پر۔ عدالتی نظام کی تمام توانائیاں ان پر صرف ہو رہی ہیں۔ ایک اور خطرناک مجرم کا نام ذہن سے اُتر گیا‘ شاہ محمود قریشی۔ مخدوم بھی سوچتے ہوں گے اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔میں مذاق نہیں کر رہا‘ یہ سنجیدہ باتیں ہیں۔ معیشت کو چھوڑیے‘ اُس کا ذکر کیا کرنا۔ ذکر کرکر کے پوری قوم تھک چکی ہے لیکن معیشت ہے کہ سنورنے کا نام نہیں لے رہی۔ لیکن یہ جو تقریباً باقاعدہ جنگیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری ہیں‘ یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے‘ ان سے پیدا ہونے والے خطرات پاکستان کو لاحق ہیں۔ لیکن یہاں تو لگتا ہے ترجیحات ہی اور ہیں۔ اندر رکھو فلاں کو‘ مقدمات قائم کرو خاص قماش کے لوگوں پر اور پھر یہ اہتمام کرو کہ مقدمات کتنے ہی بوگس ہوں‘ اس قماش کے لوگوں کو ضمانت پر باہر نہیں آنے دینا۔ عدالتی نظام اور قانون کی کتابیں مذاق بن کر رہ گئی ہیں۔ جج صاحبان دھمکیوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش یہ سب بڑے چیلنجزہیں لیکن ہم اپنی ڈگر پر مست ہیں۔ یہ جو خواتین جن پر مقدمات ہیں‘ ان پر الزامات یہ ہیں کہ پچھلی مئی کی فلاں تاریخ کو بیک وقت لاہور کے مختلف مقامات اور ایک کہیں میانوالی میں یہ سرکاری تنصیبات پر حملہ آور ہوئیں۔ یعنی سپرمین کیا ہوا‘ ان کے اُڑنے کی صلاحیتیں سپرمین سے بڑھ کر ہوئیں کہ لاہور میں بھی حملہ کرتی ہیں اور پھر اڑانبھر کر میانوالی میں بھی حملہ کر دیتی ہیں۔ مذاق کا بھی کوئی ڈھنگ ہونا چاہیے‘ یہاں تو بس کارروائیاں ڈالنی ہوتی ہیں‘ چاہے وہ کتنی بھونڈی قسم کی ہوں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں