امید مرتی جا رہی ہے، کوئی یہاں رہنے کو تیار نہیں ، ریاست کے حکمران اور سیاست دان امید کو جگائے رکھتے ہیں لیکن یہاں کسی کو مستقبل کی فکر ہی نہیں۔نہ سیاست میں منطقی انداز ہے نہ معاشرت اور نہ معیشت۔نتیجہ کیا نکل رہا ہے کہ کوئی بھی قومی معاملہ سلجھ نہیں رہا بلکہ ہمہ جہت الجھاؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے”قومی مرثیہ ” لکھ دیا ۔ روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ کالم میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ افسوس کہ تضادستان میں نواب واجد علی خان جیسی عیاشیاں کرنے والے اشرافیہ کے لوگ تو جا بجا نظر آتے ہیں لیکن ریاست کی کمزوری اور زوال کو بیان کرنے والا میر انیس ایک بھی نہیں۔آپ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دیکھیں سب سے زیادہ رش کھانوں کی دکانوں پر ہے، لائبریریاں اور میوزیم بھاں بھاں کر رہے ہیں ۔جس طرح لکھنو کا نظام حکومت مفلوج ہو چکا تھا وہی حال تضادستان کا ہے۔ تضادستان میں بھی ٹیلنٹ کی کوئی پہچان نہیں، یہاں امید مرتی جا رہی ہے ریاست کے حکمران اور سیاست دان امید کو جگائے رکھتے ہیں لیکن یہاں کسی کو مستقبل کی فکر ہی نہیں۔کالم میں سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ ان آراء کے بعد تضادستان کی زمینی صورتحال سن لیں۔ تضادستان کے سب سے بڑے صنعتی گروپ جو اب ملٹی نیشنل ہے، اس کے حالات یہ ہیں کہ اسکے سربراہ کے 4 پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں سے کوئی ایک بھی اس ملک میں رہنے کو تیار نہیں، یہ خاندان یہاں کی اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے، مال و دولت، عزت، شہرت اور ساکھ سب ان کو حاصل ہے لیکن سارے بچے امریکہ اور یورپ میں مقیم ہیں اور ان میں سے کوئی واپس آکر اتنا بڑا کاروبار سنبھالنے کو بھی تیار نہیں۔اسی طرح کے اور صنعتی خاندان جس کی ایک زمانے میں سب سے بڑی ٹیکسٹائل فیکٹری ہوا کرتی تھی وہ سارا خاندان بیرون ملک شفٹ ہو چکا ہے، کاروبار یہاں چل رہے ہیں مگر وہ تضادستان میں رہنے کو تیار نہیں۔ کتنے ہی خاندانوں کو ہم جانتے ہیں جو دبئی اور بیرون ملک بیٹھ کر کاروبار چلاتے ہیں، لاکھوں افراد بیرون ملک جاکر مقیم ہوگئے۔ جو بچے باہر پڑھنے جا رہے ہیں ان کیلئے یہاں مواقع نہیں اس لئے وہ وہیں کے ہو جاتے ہیں۔ اور تو اور ملک ریاض، جو حکمران اشرافیہ کو ڈیل کرنے کا فن بھی جانتے ہیں، بھی کئی سال سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہوا، کیوں ہو رہا ہے اور اسے روکا نہ گیا تو تضادستان میں رہ کیا جائےگا؟سہیل وڑائچ اپنے کالم کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ۔۔آج کی جدید دنیا میں ریاست کو مثبت رخ دینے کی سب سے زیادہ ذمہ داری سیاست دانوں کی ہوتی ہے پاکستانی عوام نے ووٹ دیکر سیاست دانوں کو اختیار دے دیا ہے کہ ریاست اور عوام کی تقدیر کا فیصلہ وہ کریں، اب اگر یہ سیاست اناپرستی اور اقتدار پرستی کے پنجروں میں بند رہی تو یہ قوم بھی اسیر ہی رہے گی، اسے کبھی آزادی نصیب نہیں ہوگی، کاش کوئی ایک فریق صرف پانچ سال کے اقتدار کی قربانی دیدے تو معاملات مثبت رخ اختیار کر سکتےہیں مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
یہاں کسی کو مستقبل کی فکر نہیں، سہیل وڑائچ۔۔
Facebook Comments