تحریر: جاوید چودھری۔۔
میری امان اللہ مرحوم سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن یہ اس کے باوجود میرے بہت بڑے محسن ہیں‘ بیس برسوں میں کوئی ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب میں نے ان کو یاد نہ کیا ہو اور ان کے لیے دعا نہ کی ہو‘ میں نے زندگی میں ہزاروں انٹرویوز دیکھے ہیں لیکن دو انٹرویوز دماغ کی دیواروں کے ساتھ چپک کر رہ گئے ہیں‘ پہلا انٹرویو تھیٹر کی ایک بدنام زمانہ اداکارہ کا تھا‘ وہ خاتون ہیں۔
لہٰذا میں ان کا نام نہیں لکھ رہا لیکن میں اس خاتون کے الفاظ ہزاروں لوگوں کو سنا چکا ہوں‘ خاتون کا تعلق ’’اس بازار‘‘ سے تھا اور اس نے انٹرویو لینے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ صرف اپنے بیک گراؤنڈ کا اعتراف کیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا مجھے لوگوں نے اغواء کیا‘ مجھے سڑکوں پر گھسیٹا گیا‘ میرے بال کاٹ دیے گئے اور مجھے سرعام مارا گیا لیکن میں نے اپنا کام نہیں چھوڑا‘ میں ٹنڈ ہونے کے باوجود اگلے دن تھیٹر پہنچی اور میں نے اسٹیج پر ڈانس کیا‘وہ خاتون بے باکی میں ایک قدم اور آگے بڑھ گئی اور اس نے کہا ’’لوگ مجھے کنجر کہتے ہیں اور میں سب کے سامنے مانتی ہوں میں کنجر ہوں‘ میں نے آج تک اپنے نام کے آگے پیچھے شاہ‘ چوہدری‘ رضوی‘ خان یا قریشی نہیں لگایا‘ میں جو ہوں میں وہی ہوں‘‘ میں نے جوں ہی یہ الفاظ سنے مجھے فوراً حضرت عیسیٰ ؑ کا واقعہ یاد آ گیا‘ آپ ؑ ڈوبتے ہوئے بچھو کو پانی سے نکالتے تھے اور وہ آپ ؑ کے ہاتھ پر ڈنک مار دیتا تھا‘ آپؑ تکلیف کی وجہ سے اسے چھوڑدیتے تھے۔
وہ دوبارہ پانی میں گر جاتا تھا‘ آپؑ اسے پھر نکالتے تھے اور وہ پھر ڈس لیتا تھا‘ حواری نے آپؑ سے کہا‘ یسوع مسیح آپؑ اسے اس کے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے‘ آپؑ نے فرمایا اگر یہ اپنی برائی نہیں چھوڑ رہا تو میں اپنی اچھائی کیوں چھوڑ دوں‘ میں نے خاتون کا انٹرویو سنا اور سوچا دنیا اگر اپنی بھرپور طاقت کے باوجود ناچنے والی کو ناچنے سے باز نہیں رکھ سکی‘ یہ ٹنڈ ہونے کے باوجود اگلے دن دوبارہ اسٹیج پر پہنچ جاتی ہے تو پھر ہم لوگ اپنی اچھائی کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔ہم لوگوں کی تنقید‘ لوگوں کی مخالفت پر اپنا سچا اور کھرا موقف کیوں بدل لیتے ہیں‘ ہم صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کبھی قاری اور کبھی رضوی کیوں بن جاتے ہیں اور ہم ’’آپ بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں اور ہاں آپ بھی درست فرما رہے ہیں‘‘ کیوںکہتے ہیں؟ میں ہر دوسرے تیسرے دن اپنے سیشنز میں لوگوں کو یہ واقعہ سناتا ہوں اور عرض کرتا ہوں’’اگر وہ برائی کو برائی سمجھنے کے باوجود برائی پر قائم رہی تو ہم سچائی کو سچائی سمجھتے ہوئے سچائی پر قائم کیوں نہ رہیں‘ ہم ناکامی کے بعد اگلے دن دوبارہ وہ کام شروع کیوں نہ کریں‘ ہم پیچھے کیوں ہٹیں؟‘‘ اور سننے والوں کا حوصلہ دوبارہ قدموں پر کھڑا ہو جاتا ہے اور دوسرا انٹرویو امان اللہ خان مرحوم کا تھا۔
میں ایک دن ’’لیٹ نائیٹ‘‘ کام کر رہا تھا‘ سامنے ٹیلی ویژن پر امان اللہ خان کا انٹرویو چل رہا تھا‘ میں نے اچانک آواز اونچی کر دی اور مجھے اللہ کے کرم کا الجھا ہوا دھاگا مل گیا‘ امان اللہ خان اپنی زندگی کی کہانی سنا رہے تھے‘ وہ بتا رہے تھے میں گوجرانوالہ کے چھوٹے سے گاؤں سے نکلا‘ لاہور آیا‘ رہنے کے لیے جگہ نہیں تھی‘ داتا دربارمیں مسجد میں سوتا تھا‘ صدقے کے چاول کھاتا تھا‘ باتھ روم کی ٹونٹی کا پانی پیتا تھا اور بس میں ٹکیاں ٹافیاں بیچتا تھا‘ سارا دن آواز لگاتا تھا ٹکیاں لے لو‘ ٹافیاں لے لو اور شام کوبمشکل آٹھ آنے بچتے تھے‘میں نے داتا دربار کے سامنے لچھوں کی پھیری بھی لگائی۔میری آواز کراری تھی‘ لہجہ مزاحیہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے نقل اتارنے کا فن دیا تھا چناں چہ میں لہجے بگاڑ بگاڑ کر آوازیں لگاتا رہتا تھا‘ فیصل آبادیوں کو دیکھ کر فیصل آبادی آواز لگا دیتا تھا‘ سرگودھے کے لوگوں کو دیکھ کر سرگودھے‘ خوشاب کے لوگوں کو دیکھ کر جانگلی اور پنڈی کے لوگوں کو دیکھ کر پنڈی وال بن جاتا تھا‘ لوگ مجھ سے سودا لیتے یا نہ لیتے لیکن وہ میرے سامنے رک ضرور جاتے تھے‘ وہ میری باتوں پر قہقہے بھی لگاتے تھے‘ یہ نقلیں اتارنے کا فن مجھے عالم لوہار تک لے گیا‘ عالم لوہار کا تھیٹر اس وقت پنجاب کا مشہور ترین تھیٹر تھا‘ پنجاب کے مختلف شہروں میں میلے لگتے تھے‘ عالم لوہار ہر میلے میں تھیٹر لگاتے اور لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر ان کے ٹکٹ لیتے تھے‘ عالم لوہار کا اسٹاف انھیں حاجی صاحب کہتا تھا‘ مجھے حاجی صاحب کے سامنے پیش کر دیا گیا‘ حاجی صاحب نے میرا آڈیشن لیا‘ مجھ سے پنجاب کی مختلف بولیاں بلوائیں‘ میں بولتا چلا گیا اور حاجی صاحب قہقہے لگاتے گئے یوں مجھے ان کی ٹیم میں بھرتی کر لیا گیا۔تھیٹر کے سامنے چھوٹا سا اسٹیج ہوتا تھا‘ میرا کام اس اسٹیج پر کھڑے ہو کر مختلف لہجوں میں لوگوں کو تھیٹر کی طرف متوجہ کرنا ہوتا تھا‘ میں لہجوں کی نقل بھی کرتا تھا اور لوگوں کے سامنے اداکاری بھی‘ تھیٹر کے سامنے بھیڑ لگ جاتی تھی یوں میں تھیٹر اور میلوں میں بہت مشہور ہو گیا لیکن میرے حالات تبدیل نہ ہوئے‘ میں کھولی میں رہتا تھا‘ مسجدوں کے استنجا خانے استعمال کرتا تھا‘ گلی کے نلکوں سے پانی پیتا تھا اور لوگوں کے چھابوں پر بیٹھ کر ان کے چھوڑے ہوئے سالن کے ساتھ ان کے ٹکڑے کھاتا تھا پھر ایک دن اللہ تعالیٰ کو مجھ پر ترس آگیا‘ اس نے میری سن لی‘‘ امان اللہ خان نے اس کے بعد ہاتھ جوڑے‘ اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور بولے ’’آپ لوگوں سے جب آپ کا حال پوچھا جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں اللہ کا کرم ہے لیکن میں ہمیشہ کہتا ہوں اللہ کا ترس ہے‘‘ وہ بولے ’’اللہ کا کرم پوری کائنات میں تقسیم ہوتا ہے‘ یہ چھوٹے کیڑوں اور ماس نوچنے والے گدھوں پر بھی کرم کرتا ہے لیکن یہ ترس کسی کسی پر کھاتا ہے اور مجھ پر اس ذات کو ترس آ گیا تھا چناں چہ اس نے میرے گلے سے زندگی کا پھندا ڈھیلا کر دیا‘ میں اسٹیج پر آیا اور اللہ مجھ پر ترس کھاتا رہا‘‘ امان اللہ خاموش ہو گئے۔
میں آج اعتراف کرتا ہوں میری جہالت مجھے زندگی میں بے شمار بابوں‘ دانش وروں اور علماء کرام کے پاس لے کر گئی‘ میں نے سیکڑوں لوگوں سے سیکھا لیکن توکل کا جو درس مجھے امان اللہ خان دے گئے مجھے وہ کسی ولی‘ کسی دانش ور‘ کسی عالم سے نہیں ملا‘ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں روز صبح اٹھ کر اپنے اوپر اللہ کے ترس گنتا ہوں اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں‘ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کا ترس ہے جس نے ہم جیسے نالی کے کیڑوں کو انسان بنا دیا‘ جس نے ہمیں بولنے‘ سننے‘ دیکھنے اور سمجھنے کی حس عنایت کی اور جو روز ہمارے راستے کی رکاوٹیں ہٹاتا رہتا ہے ورنہ ہم کیا ہیں‘ ہڈیوں اور بدبودار گوشت کا ایک چھوٹا سا ڈھیر اور یہ ڈھیر بھی قبر کے دس دن برداشت نہیں کر سکتا‘ ہم دس دنوں میں کیڑوں کا رزق بن کر مٹی میں مل جاتے ہیں لہٰذا یہ اس کی ذات کا رحم‘ اس کا کرم اور اس کا ترس ہے جس کے صدقے ہم جیسے غیر اہم لوگ اہم ہو جاتے ہیں ۔امان اللہ خان پاکستان میں تھیٹر تھے۔
یہ تھیٹر پر آئے تو تھیٹر تھیٹر بن گیا اور یہ تھیٹر سے اترے تو تھیٹر تھیٹر نہ رہا‘ یہ مجرا بن گیا اور یہ مجرا بھی اب ختم ہو چکا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر مزاح اتارا تھا‘ وہ خاموش بھی رہتا تھا تو لوگ ہنس پڑتے تھے‘ امان اللہ نے 860 دنوں تک مسلسل نائٹ تھیٹر کر کے عالمی ریکارڈبنایا‘ آپ آج بھی ان کا کوئی ڈرامہ دیکھ لیں آپ کے پیٹ میں بل پڑ جائیں گے۔فقرے‘ لہجے کی بناوٹ اور چہرے کے اتار چڑھاؤ امان اللہ خان ہر لحاظ سے ایک مکمل اداکار تھا‘ یہ شخص پرفارمنگ آرٹ کی پوری اکیڈمی تھا مگر افسوس اس کا اختتام اچھا نہیں ہوا‘ امان اللہ تھیٹر کے زوال کے بعد گھر چلانے کے لیے ٹیلی ویژن چینلز کا محتاج ہو گیا اور اس کی آخری عمر کم ظرفوں سے بے عزتی کراتے گزری‘ بے روزگاری‘ مالی مشکلات اور بے عزتی نے اسے بیمار کر دیا‘ اس کے گردے اور پھیپھڑے دونوں جواب دے گئے‘ شوگر کا مرض پرانا تھا‘ اس کے ساتھ ساتھ دل بھی ڈوب گیا‘ جسم کم زور تھا‘ یہ اتنی بیماریاں برداشت نہ کر سکا اوریوں یہ 6 مارچ کو جہان فانی سے کوچ کر گیا‘ اس کا چلے جانا افسوس ناک تھا لیکن اس کے چلے جانے کے بعد جو ہوا وہ عبرت ناک تھا‘ یہ جس کالونی میں رہتا تھا اس کی انتظامیہ نے اسے ’’مراثی‘‘ ڈکلیئر کر کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دی‘ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا بھلا ہو یہ آئے اور اپنے ہاتھوں سے قبر کھودنا شروع کر دی ورنہ شاید امان اللہ کی لاش بھی بوجھ بن جاتی‘یہ بھی قابل ترس ہو جاتی۔
وہ چلا گیا‘ ہم بھی چلے جائیں گے لیکن ہمیں ایک فیصلہ بہرحال کرنا پڑے گا‘ کیا اس ملک میں امان اللہ جیسے لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں‘ اگر یہ لوگ مراثی ہیں تو پھر اس ملک میں کھلنے والا ہر پھول‘ ہوا کاہر جھونکا اور بچوں کی ہر مسکراہٹ بھی مراثی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ بھی لوگوں کو خوشی دیتی ہے لہٰذا ہمیں اس ملک میں ان پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے‘ہم اس ملک میں مراثیوں کے لیے ایک الگ قبرستان کیوں نہیں بنا دیتے جس میں ہم ان شاعروں‘ اداکاروں‘ گلوکاروں‘ کھلاڑیوں‘ مصوروں‘ پروفیسروں اور بزنس مینوں کو دفن کر دیں جنھیں اللہ نے اس ملک پر ترس کھا کر یہاں پیدا کر دیا تھا‘ ہم کیا لوگ ہیں‘ ہم امان اللہ جیسے لوگوں کو قبرستانوں میں بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔