تحریر : عبدالرحیم شریف
سردار ملک عا مر یار وارن پیپلزپارٹی کے پرانے جیالے تھے،وہ سن 2002 میں بہاولپورسے بھٹوکے نام پررکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔2008میں بھی وہ ایم این اے بنے۔2010 میں جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار پائے ۔پھر وہ کپتان کی نظروں میں اہل ہوئے ،2017 کو وہ تحریک انصاف کے جہازپرسوار ہوگئے۔یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب وہ میرے کلاس فیلوتھے۔ان کے والد احمد ملک یار وارن علاقے کے سردار، وڈیرہ اورجاگیردارتھے۔
ان کے ڈیرہ پر ہر وقت لنگر جاری رہتا،کوئی راستے سے گزرے اوروقت ہو کھانے کا ،ڈیرہ کے کارکن اسے پکر کر ڈیرے کے اندر لے جاتے اور کھانا کھلاکر ہی چھوڑتے،رو ز صبح سویرے ان کے ڈیرے پر ایک بڑاجانور ذبح کیا جاتا ،جو کھانے میں ہرآنے جانے والے مہمان عام وخاص کو بلاتخصیص پیش کیا جاتا۔جب ملک عامر یار وارن کے والد پہلی دفعہ ایم این اے منتخب ہوئے توگاﺅں کی روایت کے مطابق لوگ ڈیرے پرمبارکباد کے لیے پہنچے،کوئی پھول پیش کرتا۔اورکوئی مٹھائی، کوئی ہار پہناکر اپنی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا،ہم چونکہ اس زمانے میں اسکول میں زیر تعلیم تھے،ملک عامر یار وارن ہمارے ہم مکتب تھے،چنانچہ ہم دوست اورکلاس کے چندساتھی بھی ملک عامر یاروارن کے والد کو مبارکباد دینے کے لیے ڈیرے حاضر ہوئے،مبارکباد دی،واپس جانے لگے تو سردار احمد ملک یار وارنصاحب نے سب کو روک لیا،بولے تم سب میرے بیٹے کے دوست ہو میرے ڈیرے سے بغیر کھائے کیسے جاسکتے ہو،خیر پلاﺅ،قورمہ ودیگر لوازمات سے ہماری خوب آﺅ بھگت ہوئی۔
اس زمانے میں بھی بلامبالغہ ایک جانور کی قیمت لاکھوں روپے تھی ،روزانہ جانور کی قربانی ،سوچنے کی بات ہے کیا ان کے پاس قارون کا خزانہ تھا اورکیا وہ حاتم طائی ثانی تھے۔؟؟
حقیقت کیا تھی؟ اس وڈیر ے کے پاس اتنا پیسہ کیسے اورکہاں سے آیا؟؟راوی جو عینی شاہد بھی ہے کہتا ہے،عامروارن کے والد نے اپنے پاس چھٹے ہوئے راہزن ،چور رکھے ہوئے تھے،لٹیروں کی ایک فورس قائم تھی ،لوٹ مار ان کا مشغلہ تھا،یہ فورس گردونواح کے دیہات اورگاﺅں سے روزانہ کی بنیاد پر جانوریں چوری کرتی تھی،انہی جانوروں میں سے ایک جانور قربان کیا جاتا،اور لنگر کی رونق بنتا، اگر کسی کا جانور چوری ہوجائے اورنشاندہی بھی ہوجائے کہ مذکورہ جانور عمیر صاحب کے ڈیرے پربندھی ہے تو کسی میں جرات نہ ہوتی کے وہ خود ڈیرے جاکر مطالبہ کرتا،اگر کوئی کچھ کرسکتا تو اتنا کرتا کہ درمیان میں جوڑ توڑ کرنے والوں کی مدد حاصل کرتا،اس طرح دس لاکھ کا جانور تین چار لاکھ میں وہ واپس حاصل کرکے لوٹ جاتا۔راوی ملک صاحب کہانی سنارہے تھے۔اور ہمارے ذہن میں کپتان کی ٹائیگر فورس، ریاض ملک اوران جیسوں کی تصویر یں گھوم رہی تھیں۔بس طریقہ واردات کا فرق ہے۔
بحریہ ٹاﺅن کا قصہ توالگ کہانی ہے ،ملک ریاض کے دسترخوان شہر شہر آباد ہیں،ٹی وی پراس ”مہربان“ کے کمرشل دیکھ کرلوگ اسے حاتم طائی ہی مانتے اورسمجھتے رہے اورسمجھ رہے ہیں،لیکن حقیقت کیا ہے۔پہلے ملک ریاض کے جناح اخبار میں کئی کئی ماہ سیکڑوں ورکرز تنخواہوں سے محروم رکھے گئے پھر اچانک تمام اسٹیشنوں سے اخبار بندکرکے ورکرز کو بیروزگار کردیاگیا۔جن میں ہمارے دوست احباب بھی شامل ہیں،اس کے بعد اپنے مقاصد کے لیے ”آپ نیوز“ خریدا اورپھر ایسے حالات میں جب ہر طرف کرونا کرونا ہے۔ ورکرز معاشی طورپرپریشان وبدحال ہیں، ملک ریاض نے آپ نیوز اچانک بند کرکے سیکڑوں ورکرز کو بے آسرے کردیا ہے۔
ایک طرف کرونا سے بیروزگاری کا سیلاب ہے تو دوسری طرف کوئی سیٹھ کمپنی میں رائٹ سائزنگ کررہا اورکوئی موقع غنیمت جان کر ورکرز کی چھانٹیوں میں مصروف ہے۔اور جس نے اپنا کاروبار پہلے ہی باہر سیٹ کرلیاتھا۔وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوکر پوری کمپنی کا بوریا بسترسمیٹ چکا ہے۔ مراعات بھی ہضم۔تنخواہیں بھی چٹ۔۔
پاکستان کا نمبرون کہلوانے والا ایک چینل اپنی ہیڈلائنز میں اپنے حریف چینل کے مالک کو میڈیافرعون کا لقب دیتا ہے،لیکن اپنے ورکرزکے واجبات دبائے بیٹھا،سیکڑوں صحافی میڈیا ورکرز اپنے حقوق کے لیے اس چینل کے خلاف کورٹ کا درکھٹکھٹانے پرمجبورہیں۔اورطرفہ تماشہ یہ ہے کہ ایک اخبار ہے جو اپنی لوح کے ساتھ یہ جملہ لکھتا ہے کہ ” جو سب چھپاتے ہیں وہ ہم چھاپتے ہیں“مظلوم کی آوازاورحقوق کا دعویدار ہے۔ ،لیکن حقیقت کیا ہے!۔اخبارکامالک اپنے ورکرزکی آٹھ آٹھ ماہ کی تنخواہیں دباکر بیٹھا ہے۔نہ میڈیکل کی سہولت ہے نہ دیگرمراعات۔
ان دنوں بے لوث ایماندار اوراخلاص کے پیکروں کا وجود اپنی جگہ مگر سیکڑوں نام نہاد سیاسی و سماجی ورکرز اوربرساتی ادارے بھی ہیں جو خدائی خدمت گار بن کرمیدان میں اترے ہوئے ہیں۔ماضی قریب میں جمع کئے گئے کالے دھن میں سے دو سے پانچ فیصد نکال کرراشن بانٹ رہے ہیں۔تصاویر بنارہے ہیں تاکہ سند رہے اورکام آوے۔شکل کچھ اور۔چہرے پرکچھ ہوتا ہے اوردل میں کچھ۔معاشرہ ہو،محلہ ہو، صحت کا شعبہ ہو،میڈیا کی نگری ہو ،صنعت کی منڈی ہو، یا سیاست کا میدان ۔قدم قدم پرایسے رانگ نمبرز ملیں گے۔
جو موقع دیکھ کر بھیس بدلتے ہیں۔رنگ وروپ چڑھاتے ہیں۔میڈیا اورسوشل میڈیاکا ہتھیار استعمال کرکے زیرو سے ہیرو بن جاتے ہیں۔ارد گرد نظر دوڑائیے،ووٹ اورنو ٹ دیتے ہوئے انہیں پہچانئے۔کہیں آپ کے محلے،سیاسی ومذہبی جماعت،آفس،فیکٹری اورٹی وی چینلز میں ایسے رانگ نمبرز تو نہیں؟؟؟ورنہ ایسے رانگ نمبرزاور ”فورسز“ کا نشانہ بنتے رہیں گے۔