تحریر: جاوید چودھری۔۔
طارق عزیز مرحوم سے صرف تین ملاقاتیں ہیں‘ پہلی ملاقات 1998 میں ہوئی ‘ یہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے‘ نئے نئے سیاست دان بنے تھے‘سیاسی باریکیوں سے واقف نہیں تھے‘ میاں نواز شریف کے والد میاں شریف طارق عزیز کے فین تھے‘ وہ پی ٹی وی کے عروج کے زمانے میں صرف نیلام گھر اور نو بجے کا خبرنامہ دیکھتے تھے چناں چہ طارق عزیز میاں شریف کی دعوت پر سیاست میں آ گئے اور سیدھے ایم این اے بن گئے‘ پارٹی انھیں ثقافت کا وزیر بھی بنانا چاہتی تھی لیکن پھر حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آ گئے۔
اٹھائیس نومبر1997کا دن آ گیا‘ پنجاب ہاؤس راولپنڈی میں ورکرز اور لیڈر اکٹھے ہوئے‘ طارق عزیز سیاست کے پیچ و تاب نہیں جانتے تھے لہٰذا یہ قیادت کے دل میں اپنی وفاداری کی دھاک بٹھانے کے لیے ساری حدیں کراس کر گئے اور سپریم کورٹ پر حملہ آور ہونے والے جتھے میں شامل ہوگئے‘ چیف جسٹس کے دروازے کی تختی اکھاڑی‘ ہوا میں لہرائی‘ تصویریں بنوائیں اور اسی شام ان کا سیاسی کیریئر اڑتے ہی زخمی ہو گیا‘ یہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے ملزمان میں شامل کر لیے گئے‘ کیس چلا اور پھر یہ 2000 میں سیاست کے لیے نااہل قرار دے دیے گئے۔
میری طارق صاحب سے سپریم کورٹ حملے کے بعد پہلی ملاقات ہوئی تھی‘ یہ ایم این اے ہاسٹل میں رہتے تھے اور شام کے وقت مارگلہ روڈ پر واک کرتے تھے‘ یہ مجھے واک کے لیے لے گئے‘ میں نے تازہ تازہ کالم لکھنا شروع کیا تھا‘ میرے جیسے نابالغ صحافی کے لیے اس وقت طارق عزیز جیسے لیجنڈ سے ملاقات اور واک اعزاز کی بات تھی‘ میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھا ’’آپ نے سیاست میں آ کر غلطی نہیں کی؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’آپ اگر وعدہ کرو آپ لکھو گے نہیں تو میں سچ بتا دیتا ہوں‘‘ میں نے وعدہ کر لیا‘ وہ بولے ’’غلطی نہیں میں حماقت کے جوہڑ میں کود گیا ہوں۔یہ میرا کام نہیں تھا‘‘ وہ رک کر بولے ’’ سیاست میں آنے کے بعد وہ سیاست دان جو میرے فین تھے‘ جو اپنے بچے ساتھ لے کر میرے گھر آتے تھے اور میرا آٹو گراف لیتے تھے‘ میں آج جب قومی اسمبلی میں آتا ہوں تو وہ میری طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے‘ میں پارٹی کے اجلاس میں بھی آخری اور درمیانی قطاروں میں بیٹھتا ہوں‘ میٹنگ کے آخر میں میاں صاحب میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ذرا طارق عزیز صاحب او پاکستان زندہ باد دا نعرہ تے لا دئیو‘ یہ سن کر سب قہقہے لگاتے ہیں اور میں ماتھے کا پسینہ پونچھ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا دیتا ہوں اور یوں قہقہوں میں میٹنگ ختم ہو جاتی ہے‘‘ یہ بات میرے لیے دل چسپ تھی۔
میں نے ان سے پوچھا ’’اور آپ نے سپریم کورٹ پر حملہ کر کے غلطی نہیں کی؟‘‘ طارق صاحب نے دائیں بائیں دیکھا اور بولے ’’آپ نے وہ لطیفہ سنا ہو گا‘ کوئی مراثی کسی جگہ سے گزر رہا تھا‘ راستے میں لاش پڑی تھی‘ وہ رک کر لاش کو ٹٹول کر دیکھنے لگا‘ اتنے میں پولیس آ گئی‘ پولیس نے مراثی کو پکڑ لیا اور اس سے پوچھا‘ اے قتل توں کیتا اے (یہ قتل تم نے کیا ہے)‘ مراثی پولیس کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا لیکن ذات کا مراثی تھا۔اس برے وقت میں بھی اس کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور وہ بولا‘ موتیاں آلیو‘ مینوں تے اے کیتا کرایا ملیا اے (یہ مجھے کیا کرایا ملا تھا)‘‘ طارق عزیز صاحب ہنسے اور بولے ’’مجھے بھی یہ کیا کرایا ملا تھا‘ میں سپریم کورٹ میں موجود لوگوں میں زیادہ جانا پہچانا تھا لہٰذا سارا حملہ میرے کھاتے میں پڑ گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن سر آپ نے تو شام کے وقت پارٹی قیادت کی طرف سے شاباش بھی وصول کی تھی اور آپ جشن کے ہیرو بھی تھے‘‘ طارق عزیز صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے منیر نیازی نے کیا خوب کہا تھا‘ کج شہر دے لوگ وی ظالم سن ۔۔۔ کج سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘۔
طارق عزیز صاحب کے خلاف کیس چلا اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملزم سے مجرم بنتے چلے گئے یہاں تک کہ 2000 میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے مسلم لیگ ن کے سات رہنماؤں کو نااہل قرار دے دیا‘ان میں طارق عزیز بھی شامل تھے‘ شیخ حفیظ مرحوم ان دنوں تازہ تازہ میرے استاد بنے تھے‘ وہ بہت ذہین‘ تجربہ کار اور شان دار انسان تھے‘ علم رمل کے ماہر تھے‘ چند سیکنڈز میں ہندسے جوڑ کر ماضی‘ حال اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کر دیتے تھے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’بابا جی طارق عزیز صاحب کے ساتھ کیا ہورہا ہے‘‘ وہ ہنس کر بولے‘ انسان کا عروج اور زوال دونوں کسی نہ کسی واقعے سے اسٹارٹ ہوتے ہیں اور طارق عزیز کے ہاتھ میںچیف جسٹس کی تختی کا آ جانا وہ واقعہ ہے جس سے ان کا زوال شروع ہو گیا ہے۔
یہ اب گیلی مٹی کے بند کی طرح گرتے چلے جائیں گے‘‘ مجھے باباجی کی بات عجیب لگی لیکن وقت نے یہ ثابت کر دیا‘ طارق عزیز کے پاؤں اس کے بعد جم نہیں سکے‘ پاکستان مسلم لیگ ق بنی تو یہ اپنے گزرے وقت کو واپس لانے کے لیے ق لیگ میں بھی شامل ہو گئے‘ چوہدری شجاعت حسین نے ان کا پروگرام طارق عزیز شو بھی بحال کروا دیا لیکن طارق عزیز اور ان کے شو کی مقبولیت واپس نہ آ سکی‘ آپ وقت کا ہیر پھیر دیکھیے‘ اسٹیج بھی وہی تھا‘ چینل بھی وہی تھا اور طارق عزیز بھی وہی تھے لیکن وقت ان کی مٹھی سے کھسک چکا تھا لہٰذا وہ دوبارہ اپنی فارم میں واپس نہ آ سکے۔ میری ان سے دوسری ملاقات اس دور میں 2004میں ہوئی ‘ ان کے لہجے میں اب مایوسی آ چکی تھی‘ وہ تھوڑے تھوڑے سے اکھڑے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔
میں نے ان سے پوچھا‘ اگر آپ کی لائف ریورس ہو جائے اور آپ کے سامنے فلم‘ ٹی وی اور رائیٹنگ تین شعبے رکھے جائیں تو آپ کیا بننا چاہیں گے؟ وہ فوراً بولے’’ چندا میں صرف رائیٹر بنوں گا‘‘ وہ رکے اور ٹھوس لہجے میں بولے ’’میں نے لکھنا بند کر کے بہت بڑی غلطی کی تھی‘ مجھے شاعری کرنی چاہیے تھی‘ کتابیں لکھنی چاہیے تھیں اور تمہاری طرح کالم لکھنے چاہیے تھے‘ رائیٹنگ وفادار محبوبہ ہوتی ہے‘ یہ مرنے کے بعد بھی انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتی جب کہ دنیا میں اسکرین سے بڑا بے وفا کوئی نہیں بس تھوڑی سی ہوا چلنے‘ کیمرہ ہلنے اور لائیٹ بجھنے کی دیر ہوتی ہے اور آپ لوگوں کے حافظے تک سے غائب ہو جاتے ہیں‘ آپ اگر اس کے بعد زندہ بھی رہیں تو آپ لاش بن کر زندگی گزارتے ہیں‘‘ انھوں نے مجھے بھی مشورہ دیا ’’تم کچھ بھی کرو لیکن لکھنا مت چھوڑنا‘ یہ تمہارے کام آئے گا‘‘ اور طارق عزیز صاحب کے ساتھ میری تیسری اور آخری ملاقات پچھلے سال لاہور میں ہوئی تھی۔
یہ ہوٹل میں کھانے پر مدعو تھے‘ میں بھی وہاں موجود تھا‘ یہ اٹھ کر میرے پاس آ گئے اور کھانے کے دوران مسلسل گفتگو کرتے رہے‘ میں یہ جان کر حیران ہوا یہ عمران خان کے بہت مداح تھے‘ ان کا خیال تھا خان ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے اور یہ کچھ نہ کچھ کرے گا‘ وہ بار بار کہہ رہے تھے‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا کام یاب ترین وزیراعظم ثابت ہو گا اور میں ان سے مسلسل اتفاق کر رہا تھا‘ یہ اتفاق ان کو کھٹک گیا اور وہ مجھے غور سے دیکھ کر بولے ’’تم مجھے الو بنا رہے ہو‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’سر میری کیا مجال ہے بس آپ دو سال انتظار کر لیں۔
پورا ملک مل کر آپ کو کہہ رہا ہو گا‘‘ وہ ہنسے اور ان کے حلق میں لقمہ پھنس گیا‘ میں نے انھیںپانی پیش کر دیا‘ وہ اس کے بعد موضوع تبدیل کرتے رہے‘ بات کتابوں سے ہوتی ہوئی سفر تک پہنچی اور وہ آخر میں بولے ’’تمہیں سب سے زیادہ کون سا ملک پسند ہے‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’نیا پاکستان‘‘ انھوں نے میرے پیٹ میں کہنی ماری اور سرگوشی کی ’’بکواس نہ کرو‘‘ میں نے عرض کیا ’’سر جارجیا اچھا اور دل چسپ ملک ہے‘‘ میںاس کے بعد انھیں تبلیسی کے بارے میں بتاتا رہا اور وہ بچوں جیسی حیرت سے مجھے دیکھتے اور سنتے رہے‘ پھر اس کے بعد بولے’’میں سفر سے خوف زدہ ہوں‘ میں نے زندگی میں بہت کم سفر کیے ہیں‘ مجھے اسلام آباد بھی پردیس محسوس ہوتا ہے لیکن میں تمہارے ساتھ جارجیا ضرور جاؤں گا اور یوں ہماری تیسری ملاقات بھی ختم ہو گئی۔
میں ان سے چوتھی مرتبہ ملنا چاہتا تھا‘ وہ حقیقتاً صاحب علم اور شان دار گہرے انسان تھے لیکن وقت ایک ایسی ایکسپریس ٹرین ہے جو کسی کی خواہشوں کی غلام نہیں ہوتی‘ یہ اپنی اسپیڈ سے چلتی ہے اور مسافر ا س سے اپنی اپنی باری اور اپنے اپنے مقام پر اترتے چلے جاتے ہیں‘ طارق عزیز صاحب کا سفر بھی 17 جون کو اچانک ختم ہو گیا‘ یہ بھی ٹرین سے اتر گئے لیکن یہ جاتے جاتے ہمارے جیسے اسکرین پر ٹمٹماتے چراغوں کو یہ پیغام دے گئے دنیا میں شہرت سے زیادہ بے وفا کوئی چیز نہیں ہوتی‘ یہ جب جاتی ہے تو یہ طارق عزیز جیسے لوگوں کی طرف بھی مڑ کر نہیں دیکھتی لہٰذا جتنی مہلت مل جائے شکر ادا کریں اور لوگوں کے لیے خیر اور محبت کاذریعہ بنیں‘ نیکی اور محبت دو ایسے دیے ہیں جو مرنے کے بعد بھی قبروں کو روشن رکھتے ہیں ورنہ عارضی دنیا کی ہر نعمت وقت کے ساتھ گل ہو جاتی ہے‘ رخصت ہو جاتی ہے‘ زندگی چوتھی ملاقات کا وقت بھی نہیں دیتی‘ ہم صرف سوچتے رہ جاتے ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔