تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی بہاریں چل رہی ہیں، ٹی وی اسکرینوں اور اخبارات میں تو تجزیہ کار اپنی اپنی ماہرانہ رائے دے ہی رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا میں ایسا لگ رہا ہے سب کے سب ڈان بریڈمین سے کم نہیں، ہر بندہ ایسے ایسے تجزیئے دے رہا ہے جیسے قومی کرکٹ ٹیم عرب امارات آم لینے گئی ہے۔۔کل شاہین آسٹریلیا پر جھپٹیں گے، اگر پاکستان جیت جاتا ہے تو پھر فائنل تو پکا شاہینوں کا ہی ہوگا۔۔دوسری طرف بھارتی ٹیم جو ورلڈ کپ کو ورلڈ’’گپ‘‘ سمجھ رہی تھی اسی لئے لمبی لمبی ’’چھوڑ‘‘ رہی تھی، خیر سے واپسی کا ٹکٹ کٹا چکی ہے۔۔ چلیں آج ہمارا موڈ بھی کچھ ’’گپ بازی‘‘ کا ہے۔۔لیکن اس سے پہلے آپ سے کچھ ایک دو کام کی باتیں ہوجائیں۔۔
سب سے پہلے تو ایک لرزہ خیز واقعہ سن لیں۔۔ پولیس چوکی پر ایک شخص کی تلاشی کے دوران جیب سے کالے رنگ کی ایک ڈبیا نکلی۔پولیس والے نے وہ ڈبیا طلب کی تو بندے نے دینے سے انکار کر دیا، پولیس والے نے ڈبیا چھیننا چاہی تو بندے نے وہ ڈبیا مٹھی میں بھینچ لی۔پولیس والے کا شک اب یقین میں بدل چکا تھا کہ ڈبیا میں کوئی نشہ آور دوا پاؤڈر ،چرس یا حشیش ہے۔پولیس انسپکٹر کو بلایا گیا اور اس شخص کو تھانے لے جایا گیا اس کے باوجود یہ شخص ڈبیا پولیس کے حوالے کرنے پر کسی طور راضی نہیں تھا۔ انسپکٹر نے پستول کنپٹی پر رکھا اور اس بندے سے وہ ڈبیا طلب کی لیکن سارا سٹاف یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بندے نے اب بھی ڈبیا دینے سے انکار کر دیا۔۔اب یہ چھوٹی سی ڈبیا سب کے لئے ایک راز بن چکی تھی پولیس کی ساتویں حس پھڑک اٹھی تھی اب وہ سوچ رہے تھے شاید ڈبیا میں کوئی قیمتی ہیرا ہو گا بندے کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس سے وہ ڈبیا چھین لی گئی جس پر مسافر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔پولیس والے بندے کولاک اپ میں بند کر کے ڈبیا لیکر باہر آئے اور اسے کھولا تو اندر دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ڈبیا کے اندر ایک نحیف سا لال بیگ تھا جو غالبا دم گھٹنے کی وجہ اب مر چکا تھا۔پولیس انسپکٹر نے سخت لہجے میں پوچھا سچ سچ بتاؤ یہ کیوں رکھا تھا جیب میں ؟؟؟وہ بندہ روتے ہوئے گڑگڑایا۔۔سربیوی کو ڈرانے کے لئے۔
ایک پانی سے بھرے برتن میں ایک زندہ مینڈک ڈالیں اور پانی کو گرم کرنا شروع کریں – جیسے ہی پانی کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گا ، مینڈک بھی اپنی باڈی کا درجہ حرارت پانی کے مطابق ایڈجسٹ کرے گا اور تب تک کرتا رہے گا جب تک پانی کا درجہ حرارت “بوائلنگ پوائنٹ” تک نہیں پہنچ جاتا۔جیسے ہی پانی کا ٹمپریچر بوائلنگ پوائنٹ تک پہنچے گا تو مینڈک اپنی باڈی کا ٹمپریچر پانی کے ٹمپریچر کے مطابق ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا اور برتن سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا لیکن ایسا کر نہیں پائے گا کیونکہ تب تک مینڈک اپنی ساری توانائی خود کو “ماحول کے مطابق” ڈھالنے میں صرف کر چکا ہو گا ،بہت جلد مینڈک مر جائے گا۔ یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے ۔۔وہ کونسی چیز ہے جس نے مینڈک کو مارا؟۔۔ سوچئے، آپ میں سے اکثر یہ کہیں گے کہ مینڈک کو مارنے والی چیز وہ بے غیرت انسان ہے جس نے مینڈک کو پانی میں ڈالایا پھر کچھ یہ کہیں گے کہ مینڈک اْبلتے ہوئے پانی کی وجہ سے مرا۔۔۔ لیکن،سچ یہ ہے کہ مینڈک صرف اس وجہ سے مرا کیونکہ وہ وقت پر جمپ کرنے کا فیصلہ نہ کر سکا اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں لگا رہا۔۔ہماری زندگیوں میں بھی ایسے بہت سے لمحات آتے ہیں جب ہمیں خود کو حالات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے خیال رکھیں کہ کب آپ نے خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا ہے اور کب حالات کو اپنے مطابق۔۔اگر ہم دوسروں کو اپنی زندگیوں کے ساتھ جسمانی، جذباتی، مالی، روحانی اور دماغی طور پر کھیلنے کا موقع دیں گے تو وہ ایسا کرتے ہی رہیں گے اس لیے وقت اور توانائی رہتے جمپ کرنے کا فیصلہ کریں۔۔اور ہر دفعہ کنوئیں کا مینڈک بننے سے پرہیز کریں۔۔
چودھری صاحب نائی کے پاس شیو بنوانے گئے اور بولے میرے گالوں پر گڑھے ہیں جس کی وجہ سے شیو ٹھیک نہیں بنتی، بال چھوٹ جاتے ہیں۔۔نائی نے دراز سے لکڑی کی گولی نکالی اور کہا اسے دانتوں کے درمیان گال کی طرف دبا لو۔۔ چودھری صاحب نے ایسا ہی کیا۔۔ ایک طرف شیو بننے کے بعد لکڑی کی گولی دوسری گال کی طرف کرتے ہوئے چودھری صاحب نے نائی سے شک کا اظہار کیا ۔۔اگر یہ گولی پیٹ میں چلی گئی تو ؟ ۔۔نائی نے چودھری صاحب کی بات بڑی تسلی سے سنی اوربڑے آرام سے جواب دیا۔۔تو کیا!کل واپس کر دینا، جیسے دوسرے لوگ واپس کر جاتے ہیں ۔۔۔ نجانے کیوں چودھری صاحب کو اس وقت سے اُلٹیاں لگی ہوئی ہیں۔
باباجی کو پرانا پاکستان بہت پسند ہے، کہتا ہے پرانے پاکستان میں پیاز کاٹتے وقت آنکھوں میں آنسو آتے تھے، جبکہ نئے پاکستان میں پیاز خریدتے وقت آنکھوں میں آنسو آتے ہیں۔۔پپو نے ایک بہت ہی عجیب انکشاف بھی کیا،فرماتے ہیں۔۔ہر پاکستانی کسی کو مشورہ دینے کے بعد یہ ضرور کہتا ہے کہ باقی آپ کی مرضی، یعنی کہ مشورہ غلط بھی ہو تو الزام نہ آئے۔۔باباجی مزید فرماتے ہیں کہ۔۔خاموشی بہت کچھ بیان کرتی ہے، بندہ اداس ہے، ناراض ہے،کسی فکر میں ہے،عادتاً سنجیدہ ہے یاشوہر ہے۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جارہے تھے، وہ دونوں بہت خوش تھے، وہ دونوں میاں بیوی تھے، میاں کسی اورکااور بیوی کسی اور کی۔۔سب سے زیادہ بے بس انسان نائی کے پاس بال کٹواتے ہوتا ہے اس کا جدھر دل کرے آپ کا سر پکڑ کے مروڑ دیتا ہے اور بندہ اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔۔مرد کی ساری شخصیت ’’پانڈے میں وڑ‘‘ جاتی ہے ، جب وہ’’ لت پر لت ‘‘رکھ کر بیٹھا ہو اور نیچے سے اسکا ناڑا’’ لمک‘‘ رہا ہو۔۔۔کچھ لوگ ہوائی چپل کی طرح ہوتے ہیں، ساتھ تو دیتے ہیں لیکن پیچھے سے کیچڑ بھی اچھالتے ہیں۔۔آف شور کمپنیوں کے بعد اب آف شور بیویوں اور آف شور بچوں پر بھی کارروائی ہونی چاہئے۔۔ ہم لوگوں سے اچھا تو گوگل ہے، وہ تو ان کی مدد بھی کرتا ہے جنہیں گھر میں کوئی دوسری بار سالن نہیں دیتا۔۔ایم این اے کو قومی اسمبلی میں ڈیسک بجانے کا ڈیڑھ لاکھ ملتا ہے جب کہ غریب مزدور کو سارا مہینہ گدھے کی طرح کام کرکے پندرہ ہزار روپے ملتے ہیں۔۔کچھ لوگوں کے لیے مصروف زندگی سے وقت نکالنا پڑتا ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں دل سے نکالنے کیلئے زندگی کو مصروف کرنا پڑتا ہے۔۔ ایک روز ہم سے سوال کیا کہ۔۔ کیا حسن کی تعریف کرنا صرف مرد شاعروں کی ہی ذمہ داری ہے، کبھی کسی خاتون شاعرہ نے مونچھ پر کوئی نظم نہیں لکھی، جب کہ مرد شاعروں نے زلفوں پر پورے پورے دیوان چھاپ دیئے۔۔ہم سرکھجا تے رہ گئے تو اگلا سوال داغ دیا، مکھن کون سا مفید ہوتا ہے، جو کھایا جائے یا لگایا جائے؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔غیر ضروری ’’تنقید‘‘ وہ تلوار ہے جوسب سے پہلے خوبصورت تعلقات کاسر قلم کرتی ہے،اس لئے درگزر کرنا سیکھئے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔