workers ka leaders ke khilaaf aelaan baghawat

ورکرز کا لیڈروں کے خلاف اعلان بغاوت۔۔

تحریر: شمعون عرشمان۔۔

ورکرز نے لیڈروں کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا۔۔۔درجنوں صحافتی تنظیموں کی جھرمٹ میں ایک اور تنظیم کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔۔ گزشتہ چند روز سے لاہور سے مسلسل ایسی خبریں آرہی تھیں کہ وہاں کے ورکرز اپنے لیڈران سے خوش نہیں۔۔ ویسے دیکھا جائے تو لاہور پریس کلب تمام صحافتی تنظیموں اور صحافیانہ سیاست کا مرکز ہے۔۔ اور لاہور پریس کلب میں دو مضبوط گروپ ہیں۔۔ایک جرنلسٹ پینل دوسرا پروگریسیو پینل۔۔ان دنوں جرنلسٹ پینل کا زور ہے۔۔ اس سے پہلے پروگریسیو پینل پاور میں تھا۔۔ لیکن دونوں ہی گروپ عام ورکر کی داد رسی کا باعث نہ بن سکے۔۔عام ورکر شدید غم و غصے کی کیفیت سے دوچار ہے۔۔ سیلری میں کٹ ہو۔۔ برطرفیاں ہوں۔۔واجبات کا نہ ملنا ہو۔۔ تنخواہوں میں کئی کئی ماہ کی تاخیر ہو۔۔ یہ تو ایسے مسائل ہیں جس کا شکار ہر میڈیا ورکر ہے۔۔ میڈیکل ، انشورنس، چھٹیاں ،دیگر الاؤنسز کی بات تو لگژری میں شمار ہوتی ہیں، ان کے متعلق تو سوچنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔۔ورکر کی اشک شوئی کا باعث کوئی تنظیم نہیں بن رہی ۔۔چنانچہ اب لاہور میں صحافیوں کے ایک گروپ نے صحافتی تنظیموں اور لیڈروں کے خلاف بغاوت کا اعلان کرکے ازخود احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔۔

اس نئے گروپ کا نام ابھی نہیں رکھا گیا ہے لیکن کی بنیادیں رکھنے والوں میں شہباز وارثی اور طلال اشتیاق سامنے آئے ہیں۔۔ انہوں نے اس گروپ کا اعلان کچھ اس طرح سے کیا ہے کہ ۔۔۔میں گزشتہ 23 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہوں متعدد اداروں میں کام کر چکا ہوں جہان پاکستان اور خبریں کے ذمہ میرے بقایا جات ہیں جو تا دم تحریر ادا نہیں کیے گئے۔۔میرے  سینئرز ، دوست اور ساتھ کام کرنے والے جانتے ہیں کہ میں نے کبھی کرپشن کا سہارا نہیں لیا ۔ یہ سب بتانے کا مقصد کسی امداد کی طلب نہیں ہے صرف اس لیے بتا رہا ہوں کہ میرا قبیلہ میرے صحافی بھائی صحافتی تنظیموں ، ان پر براجمان دکانداروں اور جعلساز نام نہاد مفاد پرست لیڈران سے محتاط ہو جائیں ۔ ان لوگوں نے میرا یا کسی بھی  حقدار کا ساتھ نہیں دیا تھا ۔ یہ تمام لوگ صرف اپنے مفاد اپنی دکانداری اور اپنے ذاتی ممقاصد کے حصول کے لیے ہمیں استعمال کرتے ہیں ۔ ان کے احتجاج ، مظاہرے صرف اپنے اور اپنے چند ساتھیوں جو کہ ان کے سیاہ و سفید کے حصہ دار ہیں کے تحفظ کے لیے ہوتے ہیں خدارا ان سے بچیں ۔ہم اپنی لڑائی خود لڑنے جا رہے ہیں جس میں طلال اشتیاق میرا بھائی میرا دوست اور ہمارے متعدد ساتھی جو کہ ان لوگوں کے ہاتھوں فروخت ہوتے رہے ہمارے ساتھ ہیں ۔ ہم پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنا دیں گے یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارے تمام مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہو جائے گا ۔ اس دھرنے میں گزشتہ کئے جانے والے مظاہروں کی طرح جن میں حکومت کی جانب سے کمیٹیاں تشکیل دی جاتی رہیں جن میں نام نہاد لیڈران اپنے اور اپنے ساتھیوں کے نام شامل کروا کر اپنے ذاتی کام کرواتے رہے ہم ایسی کسی کمیٹی کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ ہماری کمیٹی میں ہر وہ صحافی شامل ہو گا جو دھرنے میں موجود ہو گا بصورت دیگر کوئی کمیٹی قابل قبول نہ ہو گی ۔ دھرنے میں موجود ہر صحافی برابر ہو گا کوئی لیڈر نہیں ہو گا ۔ ہم آپ سے آپ کی اپنی لڑائی میں شامل ہونے کی اپیل کر رہے ہیں یہ لڑائی تمام ایسے مالکان ان کے ٹاوٹ اور ایسے صحافیوں اور نام نہاد لیڈران کے خلاف ہے جنہوں نے صحافیوں کو بیچا کرپشن کی اور آمدن سے زائد اثاثے بنائے ایسے ناسوروں کے خلاف مکمل کارروائی ہونے تک جس میں ایسے تمام مالکان اور صحافیوں اور نام نہاد لیڈران کے کیسز نیب میں جانے اور ان کی گرفتاریوں تک دھرنا جاری رہے گا ۔ اب جو بھی ہو گا وہ کمیونٹی کے مفاد اور تحفظ کے لئے ہو گا ۔ ہمارا ساتھ دیں اپنا ساتھ دیں اپنی کمیونٹی کا اپنے بھائیوں کا ساتھ دیں ۔ اللہ کے حضور وہی سرخرو ہوں گے جو حق پر قائم رہیں گے ۔والسلام ،شہباز وارثی۔۔

لاہور کے بعد کراچی کا بھی ایسا ہی حال ہے۔۔یہاں سندھ حکومت نے ڈبل سواری پر پابندی کو سخت کرتے ہوئے صحافیوں کا استثنا بھی ختم کردیا۔۔ لیکن مجال ہے کسی صحافتی لیڈر نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہو؟ ہم نے جب کراچی کے صحافتی لیڈروں کا سروے کیا کہ کس کے پاس بائیک ہے تو انکشاف ہوا کہ سب ماشااللہ قیمتی گاڑیوں کے مالک ہیں۔۔ بائیک کا استعمال ناگزیر حالات میں کرتے ہیں۔۔ کراچی میں ایسی فضا بنتی نظر آرہی ہے کہ نوجوان صحافی کسی ایسے پلیٹ فارم کے منتظر ہیں کہ کوئی آواز بلند کرے اور سب وہاں جمع ہوجائیں۔۔ لیکن کراچی کا مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون۔۔؟؟(شمعون عرشمان)۔۔

(بلاگر کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں