تحریر : قمرالزمان بٹ
وطن عزیز پاکستان کی باون فیصد آبادی صنف نازک یعنی خواتین پر مشتمل ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد ہی سے ہر دور میں ملکی معیشت و معاشرت میں انتہائی اہم کردار نبھانے والی اس صنف کو ہمیشہ دانستہ یا نادانستہ طور پر نازنین و نزاکت کے روپ میں پیش کر کے قومی دھارے سے باہر رکھا گیا ۔ کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی سیاسی داﺅ پیچ کے ذریعے اور کبھی تعلیم کے دروازے بند کر کے اس کا استحصال کیا جاتا رہا۔۔۔ اس تمام تر المناک صورتحال کے باوجود خواتین نے جہاں اپنی کوکھ سے ایک ایسی نسل تیار کی جس نے اس نومولود مملکت کے دفاع ، استحکام اور ترقی کے لئے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے تو انہی ماﺅں ، بہنوں اور بیٹیوں نے ہمارے دیہات میں زراعت کے شعبے میں دن رات کام کر کے قوم کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے زمین کی کوکھ سے مختلف اجناس کی پیداوار بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔
وطن عزیز کی مختصر لیکن پرفتن تاریخ پر شرمندگی کے ساتھ نظر دوڑائیں تو ایوب خانی آمریت کی طرف سے صرف اپنا اقتدار بچانے کے لئے بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جو نازیبا اور ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا وہ ملکی تاریخ کا ایک شرمناک باب تو ہے ہی لیکن ضیاءالحقی آمریت میں تو رہی سہی کسر نکال دی گئی اور خواتین پر بلاجواز اور ناروا پابندیوں کا طومار باندھ دیا گیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں خواتین کو ان کے حقوق کی فراہمی کے لئے عملی طور پر ٹھوس اور دور رس اقدامات کا آغاز کیا گیا جس پر صنف نازک کو مختلف شعبوں میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے عملی مظاہرے کے بھرپور مواقع ملے اور انہوں نے معاشرے میں خود کو منوایا ۔
دیگر شعبوں کی طرح شعبہ صحافت میں بھی ایک طویل عرصے تک مرد حضرات کی اجارہ داری قائم رہی اور خواتین ابلاغ عامہ اور تعلیم و تعلم کے اس بنیادی شعبے سے دور رہیں لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے صنف نازک نے صحافت میں نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ عملی طور پر اس فیلڈ میں کام کر کے خود کو صنف آہن بن کر دکھایا ہے ۔ ملک کے بڑے شہروں کراچی ، اسلام آباد اور لاہور کی جامعات میں ابلاغیات کی تعلیم و تدریس اور پھر ان شہروں میں قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ہیڈکوارٹرز ہونے کے ناتے مرد صحافیوں کے ساتھ ساتھ خاتون صحافیوں کو بھی صحافتی جوہر دکھانے کے بھرپور مواقع اور وسائل میسر رہے لیکن فیصل آباد اور اس جیسے دیگر شہروں میں اس وقت تک خواتین عملی طور پر شعبہ صحافت میں فعال نہ ہو سکیں جب تک جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں صحافت کی تدریس کا آغاز نہ ہوا ۔ ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ سے فارغ التحصیل طالبات نے خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا میں خوب کام کر کے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کے 2005-07 کے پہلے بیچ میں صرف بیس طلبہ نے داخلہ لیا جن میں صرف چھ طالبات تھیں لیکن ان میں سے کسی طالبہ نے بھی عملی صحافت کو بطور پیشہ اختیار نہیں کیا ۔ بعد کے بیچز میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے صحافت کی نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ مختلف ٹی وی چینلز ، اخبارات اور ریڈیو میں ملازمت حاصل کر کے نہ صرف اپنا نام بنا رہی ہیں بلکہ اپنے اہلخانہ کی کفالت کی ذمہ داری بھی نبھا رہی ہیں ۔ اپنے قیام سے اب تک اس ڈیپارٹمنٹ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ میں تیس فیصد تعداد طالبات کی ہے ۔
فیصل آباد کی انہی باہمت اور باحوصلہ ورکنگ خاتون صحافیوں نے اپنے مسائل کے حل اور حقوق کے حصول کے لئے گزشتہ ماہ ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن فیصل آباد کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کی صدر مروا عنتر (سیون نیوز ) ، جنرل سیکرٹری جویریہ نذیر (نیو نیوز) ، فنانس سیکرٹری رباب چیمہ ( 92 نیوز) ، انفارمیشن سیکرٹری ردا سندھو (سما نیوز) جبکہ ایگزیکٹو ممبرز میں شائشتہ شیخ ( 92 نیوز) ، خلزا لیاقت (سٹی 41) ، کرن شہزادی ( سنو نیوز) ، مریم رضا (سٹی 41) ، طیبہ علی (جی این این) ، مناہل (پبلک نیوز ) ، محراب (92 نیوز) اور فیصل آباد میں الیکٹرونک میڈیا کی پہلی خاتون رپورٹر کا اعزاز رکھنے والی شہناز محمود ( پی آر او لائلپور میوزیم ) شامل ہیں ۔ ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن فیصل آباد کی پروقار تقریب حلف برداری میونسپل کارپوریشن ہال میں منعقد ہوئی جس کی صدارت ڈویژنل کمشنر محترمہ سلوت سعید نے کی جبکہ سٹی پولیس افسر کامران عادل مہمان خصوصی تھے ۔ تقریب کی نظامت کے فرائض ہر دلعزیز صحافی اویس ستار نے بڑی خوبی سے سرانجام دیئے ۔ کمشنر محترمہ سلوت سعید نے تنظیم کی عہدیداروں اور ایگزیکٹو ممبرزسے حلف لیا جبکہ بعدازاں دونوں مہمان شخصیات نے فیصل آباد کے سینئر صحافیوں میں شیلڈز تقسیم کیں ۔ اس موقع پر کمشنر ، سی پی او ، سی ٹی او ، ڈائریکٹر انفرمیشن خورشید جیلانی سمیت مختلف سرکاری افسران کو بھی یادگاری شیلڈز دی گئیں ۔ کمشنر اور سی پی او فیصل آباد نے اپنے خطاب میں ویمن جرنلسٹس کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ۔ کمشنر سلوت سعید نے ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی نومنتخب کابینہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ شعبہ صحافت میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ فیصل آباد میں پہلی ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن کا قیام خوش آئند ہے ۔ ایسوسی ایشن سے منسلک صحافی خواتین عوامی مسائل کی بہتر انداز میں نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی اقدامات بھی اجاگر کر رہی ہیں ۔ کمشنر کا کہنا تھا صحافی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے ایسوسی ایشن کی کاوشیں لائق تحسین ہیں ۔ ڈویژنل انتظامیہ صحافی خواتین کی حوصلہ افزائی کے اقدامات جاری رکھے گی ۔صدر ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن مروا عنتر اور سیکرٹری جویریہ نذیر نے حلف برداری تقریب میں شرکت کرنے پر کمشنر اور دیگر شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مثبت اور بامقصد صحافت کا فروغ ایسوسی ایشن کی ترجیح ہے ۔
ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی اس تقریب میں ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کی سربراہ محترمہ سلمیٰ عنبر کی موجودگی ازبس ضروری تھی لیکن انہیں شاید دعوت ہی نہیں دی گئی تھی ۔ محترمہ سلمیٰ عنبر کی فیصل آباد کی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے لئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ وہ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کی پہلی سربراہ کے طور پر تعینات ہوئیں تو انہوں نے اپنی انتھک محنت کے ذریعے اس شعبے کو کامیابی کی بلندیوں اور رفعتوں تک پہنچا دیا ۔ 2005-07 کے پہلے بیچ کے فارغ التحصیل ہونے سے آج تک ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کے طلباء و طالبات کے لئے وہ ایک مینارہ علم و احترام کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اگر انہیں ان کی بے لوث خدمات پر فیصل آباد کی مادر صحافت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی پروقار تقریب میں محترمہ سلمیٰ عنبر کو بھی مدعو کیا جاتا تو اس تقریب کی زیب و زینت اور تنظیم کی عزت و احترام میں مزید اضافہ ہوتا ۔(قمرالزمان بٹ)۔۔