women journalist association ke qayaam ka aelaan

ویمن جرنلٹس ایسوسی ایشن کے قیام کا اعلان۔۔

ملک بھر سے تعلق رکھنے والی مختلف خواتین صحافیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، دوسرے پالیسی ساز اداروں اور پاکستان پریس کونسل کے ساتھ صحافیوں کے تحفظ کیلئے آمدہ قانون کے تحت بنائی جانے والی کمیٹیوں میں 33 فیصد نشستیں مختص کی جائیں۔  یہ مطالبات خواتین کی قیادت کے بارے میں تربیت فراہم کرنے والے افراد کی قومی تربیتی ورکشاپ کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں کئے گئے۔ اس تربیتی ورکشاپ کا اہتمام ویمن لرننگ پارٹنر شپ کے تحت عورت فائونڈیشن نے کیا تھا۔ تربیت فراہم کرنے والوں کی قومی تربیتی ورکشاپ میں ملک کے مختلف حصوں سے خواتین صحافیوں نے شرکت کی۔ خواتین صحافیوں نے اس موقع پر ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ خواتین صحافیوں نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ذرائع ابلاغ کے موجودہ بحران کے دوران نوکریاں چھن جانے والی خواتین صحافیوں کی تعداد اور کام کرنے کی جگہ پر ان کو دستیاب بنیادی سہولیات کے جائزے کیلئے صحافتی اداروں کا صنفی آڈٹ کرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بحران کے دوران خواتین صحافیوں کی بڑی تعداد اپنی نوکریوں سے محروم ہوچکی ہیں لیکن خواتین صحافیوں کو ہونے والا نقصان نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ذرائع ابلاغ کے کسی بھی ادارے میں خواتین کی کم از کم 33 فیصد موجودگی کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ترمیم بھی جائے۔ یہ بھی تجویز کیا گیا کہ خواتین صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات سے نمٹنے کیلئے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی سائبر کرائم سیل میں خصوصی ڈیسک بنایا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر کسی بھی سیاسی جماعت کا عہدیدار خواتین صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے میں ملوث پایا گیا تو پارٹی کی جانب سے اس کی مذمت کی جانی چاہئے۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ تجویز دی کہ تمام سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیلز کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ رجسٹرز ہونا چاہئے اور ایسے سیلز کیلئے ضابطہ اخلاق بھی وضع کرنا چاہئے۔ انہوں نے کام کرنے کی جگہ پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ کے قانون 2010 کے تحت ہر صحافتی ادارے، یونین کے دفاتر اور پریس کلبوں میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایت کمیٹیاں قائم کرنے پر بھی زور دیا۔ انہوں نے خواتین صحافیوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا کرنے، خواتین ملازمین کیلئے دوران زچگی تین ماہ کی رخصت بمع تنخواہ کے بارے میں قانون پر سختی سے عمل کرنے، مساوی تنخواہ اور بہتر مواقع کی فراہمی کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے مرد بیمہ کی سہولت، خواتین ہاسٹلوں میں 10 فیصد کوٹہ، سینئر خواتین صحافیوں کیلئے فلاح بہبود کی سکیموں اور علاج معالجے کی مفت سہولت، سستے گھر کی فراہمی اور کار کیلئے قرضہ فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ تین روزہ قیادت تربیتی ورکشاپ میں ان خواتین صحافیوں نے شرکت کی جو ملک بھر کی یونین اور کلب کی سیاست میں متحرک ہیں۔ شرکاء کو ایک حقیقی رہنما کی خصوصیات، روابط اور اتحاد بنانے، خواتین کیخلاف ہراسانی کے واقعات کی روک تھام، صنفی مساوات اور بات کرنے کی اہمیت کے بارے میں تربیت فراہم کی گئی۔

ماہرہ خان نے آخرکار خاموشی توڑ دی۔۔
social media marketing
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں