khusra qanoon | Imran Junior

وہ بیتے دن یاد ہیں؟؟

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو،بندہ جب بھی ماضی میں جاتا ہے تو کچھ حسین یادوں کو یاد کرکے مسکراتا ضرور ہے۔۔ انسان کتنا ہی دکھی اور پریشان کیوں نہ ہو، ماضی میں کچھ خوشگوار واقعات ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کی جب جب بھی یاد آتی ہے، چہرہ کھل اٹھتا ہے۔۔ باباجی کاتو پورا ماضی ہی کسی لطیفوں کی کتاب سے کم نہیں۔۔ درجنوں واقعات انہیں ازبر رہتے ہیں، جو موقع کی مناسبت سے محفل میں پیش بھی کرتے رہتے ہیں۔۔ ایک روز ہم نے باباجی کے بیتے دنوں کو کریدنے کی کوشش کی تو محفل میںچار چاند لگ گئے۔۔ باباجی یادوں کے دریچوں سے ایسی یادیں، کھرچ کھرچ کر لارہے تھے کہ ہر واقعہ زاروقطار ہنسنے پر مجبور کررہا تھا۔۔ چلیں آج باباجی کے ماضی کے کچھ قصے سناتے ہیں ۔۔ باباجی ایک بار اپنی زوجہ ماجدہ کو سسرال سے واپس لارہے تھے، گھر پہنچ کر خاتون خانہ سے فرمانے لگے۔۔ آج تمہاری ماں نے میری شدید ’’بزتی‘‘ خراب کی ہے۔۔ میں سو روپے کے پھل فروٹ لے کر تمہیں لینے کے لیے آیا تھا ، سسرال انسان خالی ہاتھ تو نہیں جاتا ناں۔۔ واپسی پر تمہاری ماں نے میرے ہاتھ میں پچاس روپے رکھ دیئے، مجھے تو پچاس روپے کا گھاٹا ہوگیا ناں۔۔ زوجہ ماجدہ نے جب اپنے شوہر نامدار کی یہ بات سنی تو ماتھا پکڑ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی۔۔ تم سسرال مجھے لینے گئے تھے یا فروٹ بیچنے؟؟۔۔ایک بار باباجی نے اپنی زوجہ ماجدہ سے کہا۔۔ ڈیٹ پر چلتے ہیں، ڈنر باہر کریں گے۔۔ بیگم نے کہا عشا پڑھ کر چلتے ہیں، پوری تسلی سے سترہ رکعات پوری کیں، گھر کی حفاظت کا وظیفہ کیا، شوہر کو قابو رکھنے کا وظیفہ کیا، سارے گھر پر، سب کو دم کیا۔۔اور تھک گئیں۔۔بولیں ’’ڈیٹ‘‘ ویسے بھی انگریزوں والی حرکت ہے اور غیر اسلامی کام ہے۔۔۔پھر ہم دونوں کروٹ بدل کر سو گئے۔۔رات آنکھ کھلی تو تہجد چل رہی تھی۔۔کچھ شوخی سوجھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔۔مگر خشمگیں نگاہ کی تاب نہ لاسکا، نمازفجر ادا کی اور دوبارہ سے سوگئے۔۔اگلی شام سیکریٹری کے ساتھ ڈیٹ پر گیا۔۔اسے ڈنر کرایا، ہاتھ بھی پکڑا۔۔کچھ شوخیاں بھی کر گزرے، رات دیر گئے اسے اس کے گھر ڈراپ کیا۔۔اپنے گھر پہنچے۔۔زوجہ ماجدہ جائے نماز پر بیٹھی شوہر قابو کرنے کا وظیفہ کر رہی تھی اور آسمان سے اتری کوئی مقدس فرشتہ معلوم ہو رہی تھی۔۔خدا نظر بد سے بچائے۔۔ باباجی کہنے لگے یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں راولپنڈی رہاکرتاتھا، ایک بار زوجہ ماجدہ سے کچھ ان بن ہوگئی تو وہ گھر جاکر بیٹھ گئی، کافی کوششیں کرڈالیں، واپسی کی راہ ہموار نہ ہوسکی تو سوچا، عدالت میں کیس کرتے ہیں۔۔کیس کے لیے کسی وکیل کا ہونا بہت ضروری ہے، ایک وکیل کے پاس گیا، اسے اپنا کیس سمجھانے لگا۔۔وکیل صاحب میری زوجہ کو ورغلانے میں میری خوشدامن کا برابر ہاتھ ہے اور میری خوشدامن کوبھڑکانے میں میرے ھم زلف کا کردارہے ۔ میرا برادر نسبتی سارے معاملے میں غیرجانبدارہے جبکہ میری خواہر نسبتی صلح صفائی کے حق میں ہے۔۔وکیل صاحب نے بڑی توجہ سے میری ساری بات سننے کے بعد کہا۔۔ہن توں اے ساری گل پنجابی وچ دس۔۔ باباجی نے ہم سے سوال کیا۔۔کیا کبھی آپ نے اپنے کسی ہم عمر کو اچانک دیکھ کر سوچا ہے کہ یہ کیسا لگ رہا ہے؟ اتنا بوڑھا ہو گیا ہے یہ تو؟ ہم نے گردن اوپر سے نیچے ہلائی اور کہا، کبھی کبھی ایسا ہوجاتا ہے۔۔ کہنے لگے اسی پر ایک واقعہ سن لو۔۔ کراچی کے ایک پوش علاقے میں ایک لڑکی ذکیہ رہا کرتی تھی جسے پیار میں سب ’’زیک‘‘ کہاکرتے تھے،ابتدائی تعلیم اس نے یہیں حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے آسٹریلیا چلی گئی۔۔ اپنی تعلیم مکمل کرکے اس نے وہاں جاب شروع کردی، کافی عرصے بعد وہ واپس کراچی آگئی۔۔یعنی کہ ادھر ہی شفٹ ہوگئی۔۔ ایک دن اس کی داڑھ میں تکلیف ہوئی تو گھر کے قریب ایک معروف ڈینٹل سرجن کے کلینک چلی گئی۔۔وہاں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔۔کلینک کی دیوار پر ڈاکٹر کی تعلیمی اسناد آویزاں تھیں۔ وقت گزاری کے لیے وہ انہیں دیکھنے لگے، اچانک اس کی نظر ڈاکٹر کے پورے نام پر پڑی تو اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔ یہ تو وہی لمبا چوڑا سیاہ بالوں والا خوش شکل، خوش لباس اور ہینڈسم کلاس فیلو تھا۔۔وہ اپنی باری پر اندر گئی تو ڈاکٹر کو دیکھتے ہی اس کے سارے جذبات بھاپ بن کر بھک سے اڑ گئے۔ یہ ڈاکٹر سر سے گنجا، سر کے اطراف میں سلیٹی رنگ کے بالوں کی جھالر، چہرے پر پڑی ہوئی جھریاں، باہر کو نکلا ہوا مٹکے جیسا پیٹ اور کمر اس سے کہیں زیادہ جھکی ہوئی جتنی اس کے کئی دیگر ہم عمر دوستوں کی تھی جنہیں وہ جانتی تھی۔ڈاکٹر نے ذکیہ کے دانتوں کا معائنہ کر لیا تواس لڑکی نے پوچھا۔۔ ڈاکٹر صاحب، کیا آپ شہر کے فلاں کالج میں بھی پڑھتے رہے ہیں؟کالج کا نام سنتے ہی ڈاکٹر کا لب و لہجہ ہی بدل گیا۔ جذبات کو بمشکل قابو میں رکھتے ہوئے اونچی آواز میں بولا۔۔ جی جی، کیا یاد دلا دیا، میں اسی کالج سے ہی تو پڑھا ہوا ہوں۔لڑکی نے پھرپوچھا۔۔۔ آپ نے کس سال میں وہاں سے گریجوایٹ کیا تھا؟اس بار ڈاکٹر نے چہکتے ہوئے کہا۔۔ میں نے 1975 میں وہاں سے گریجوایشن کی تھی، لیکن آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟لڑکی نے اسے بتایا کہ ان دنوں وہ بھی اسی کلاس میں ہواکرتی تھی۔۔اس بُڈھے، بد شکل، گنجے، بھالو جیسی توند والے موٹے، اجڑی ہوئی منحوس شکل والے بے شرم اور بے حیا ڈاکٹر نے لڑکی کی شکل کو غور سے دیکھااورحیرت بھرے لہجے میں پوچھا۔۔اچھا۔کونسا مضمون پڑھایا کرتی تھیں آپ؟۔ بھٹو کا دور تھا۔۔ باباجی کا قیام ان دنوں راولپنڈی میں تھا، پنڈی کی یادوں کو کریدتے ہوئے باباجی کہنے لگا۔۔ ایک بار میں ڈیوٹی سے واپس گھر آرہا تھا کہ ہمارے گھر کے قریب ہی ایک چار منزلہ بلڈنگ کی چھت پر ایک پاگل چڑھ گیا اور زور زور سے چیخنے لگا۔۔مَیں کُدّن لگا جے۔۔لوگ اکٹھے ہوگئے، پولیس آگئی۔۔ایمبولینس بھی پہنچ گئی۔۔پولیس والا اسپیکر پر کہنے لگا۔۔نیچے آجاؤ، گرجاؤگے۔۔وہ پاگل اوپر سے چیخا۔۔مَیں یہاں کوئی آم لینے نہیں آیا۔۔کودنے کے لیے آیا ہوں۔۔پچھے پچھے ہٹ جاؤ۔۔مَیں کُدّن لگا جے۔۔۔پولیس والے نے اسے باتوں میں لگانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔۔مگر تم کیوں کودنے لگے ہو؟؟ پاگل نے اوپر سے دھمکی لگائی۔۔ مجھے بادشاہ بناؤ، ورنہ میں کدن لگاجے۔۔پولیس والے سمجھ گئے،اسپیکر پر اسے کہاگیا۔۔ٹھیک ہے بادشاہ سلامت، نیچے تشریف لے آئیں، رعایا آپ کی منتظر ہے۔۔پولیس والوں نے مجمع کو اشارہ کیا تو سب شورمچانے لگے۔۔ساڈا بادشاہ زندہ باد، ساڈا بادشاہ زندہ باد۔۔زندہ باد کا شور سن کر پاگل پھر پسرگیا، بولا۔۔ میں نیچے نہیں آسکتا، میں کدن لگاجے۔۔پولیس والے پریشان ہوگئے، باادب پوچھا۔۔مگر کیوں؟ اب تو آپ کو بادشاہ سلامت بنادیا ہے۔۔سب نعرے بھی لگارہے ہیں۔۔۔پاگل کہنے لگا۔۔جو قوم پاگلوں کو بادشاہ بنالے، میں ایسے لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔۔میں کدن لگا جے۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔لوگ بارشوں میں پکوڑے کھاتے ہیں جب کہ واپڈا اور پی ٹی سی ایل والے گالیاں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں