amir liaquat ki qabar kushai ka hukum nazarsaani ki darkhuast jama karne ka aelaan

وہ آنسودےد ے کر چلا گیا

تحریر: یونس ہمدم۔۔

گزشتہ دنوں جب ایک ٹی وی چینل پر نامور مذہبی اسکالر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے انتقال کی خبر دیکھی تو مجھے یقین نہیں آیا پھر میں نے کئی دوسرے چینل بدل بدل کر دیکھے کہ شاید یہ خبر کسی نے افواہ کی صورت میں اڑائی ہو مگر ہر چینل پر جب یہی خبر بار بار دیکھنے کو ملی تو میں کچھ دیر کے لیے سکتے میں آگیا۔ عامر لیاقت اتنی جلدی کیسے دنیا سے چلے گئے ابھی تو اس کا کوئی وقت نہیں ہے، موت کسی کو بھی کسی وقت بھی آسکتی ہے اور عامر لیاقت حسین بھی موت کی آغوش میں چلے گئے وہ کیا شخصیت تھے کہ ہزاروں آنکھوں کو اشکبار کرگئے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ایک طلسماتی شخصیت کے مالک تھے وہ جس سے بھی ایک بار ملتے تھے وہ شخص عامر لیاقت کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہو جاتا تھا وہ اپنی ذات میں ایک کشش رکھتے تھے ، وہ ایک بہترین مقرر بھی تھے ، ایک ذہین مذہبی اسکالر بھی تھے وہ ایک مذہبی تاریخ دان بھی تھے وہ اپنی ذات میں علم کا ایک سامان بھی تھے وہ محفل یاراں کی رونق بھی تھے۔

ان کی آمد سے ہر محفل میں جان پڑ جاتی تھی میری ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب میں لاہور کی فلم انڈسٹری میں بارہ سال گزار کر فلم انڈسٹری کو خیر باد کہہ کر واپس کراچی آگیا تھا اور کراچی میں میرے صحافی دوستوں نے جرنلسٹ فورم کی طرف سے ایک محفل غزل کا اہتمام کیا تھا۔ مقامی صحافی صابر علی نے یہ پروگرام آرگنائز کیا تھا اور اس پروگرام کے کمپیئر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین تھے وہ ایک خوبرو نوجوان تھے۔

اس وقت ان کے چہرے پر مونچھیں نہیں تھیں۔ اس محفل غزل میں میرے دیرینہ دوست شاعر حکیم ناصر نے بھی شرکت کی تھی اور اس محفل میں غزل سنگر آصف علی ظفر رامے اور امجد صابری قوال نے خاص طور پر شرکت کی تھی اور ڈاکٹر عامر لیاقت کی خوبصورت کمپیئرنگ نے اس محفل غزل کا حسن اور بھی بڑھا دیا تھا۔ ان کے بولنے کا انداز بڑا ہی دل میں اتر جانے والا تھا۔ اس محفل میں، میں نے اپنا کلام بھی سنایا تھا اور عامر لیاقت حسین نے بھی اپنے اشعار سنائے تھے، شاعر حکیم ناصر نے بھی ایک غزل سنائی تھی جس کا مطلع تھا :

جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے

سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

پھر ان کی یہی غزل عابدہ پروین کی آواز میں جب ریکارڈ ہوئی تھی تو اس نے نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی دھوم مچا دی تھی۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ان دنوں بطور کالم نگار ایک روزنامہ سے وابستہ تھے اور سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے سرگرم رکن بھی تھے۔

میں جب نیا نیا صحافت میں آیا تھا مجھے وہ زمانہ بھی یاد آگیا جب عامر لیاقت حسین کی والدہ محترمہ محمودہ سلطانہ کے مضامین ہم مقامی اخبارات میں شوق سے پڑھتے تھے۔ ان دنوں مشہور رائٹر ابراہیم جلیس اور عامر لیاقت کی والدہ محترمہ محمودہ سلطانہ کے مضامین کی بڑی دھوم تھی۔

ان کی والدہ بہت اچھی لکھاری تھیں جو ثقافت، ادب، سیاست ہر موضوع پر مضامین لکھتی تھیں اور ان کی تحریروں کی بڑی قدر ہوتی تھی۔ عامر لیاقت کے والد سید لیاقت حسین بھی خود سیاست کے میدان کے ماہر تھے اور محمودہ سلطانہ صاحبہ بھی سیاست کے ماحول میں سرگرم تھیں وہ اپنی تحریروں اور تقاریر کی وجہ سے سامراجی خداؤں کی ناراضگی کی بنا پر کئی بار جیل بھی جاچکی تھیں۔ ان کے والد ایک جید سیاستدان اور ان کی والدہ ایک نڈر صحافی تھیں وہ اپنی تحریروں اور تقریروں سے حکومت کے ایوانوں میں ہلچل مچائے رکھتی تھیں اور پھر اسی ماحول میں عامر لیاقت حسین کی بھی پرورش ہوئی تھی۔

طالب علمی کے زمانے میں وہ بہترین مقرر تھے اور بیشتر تقریری مقابلوں میں ان کا کوئی مقابلہ نہ کر پاتا تھا اور زیادہ تر یہی انعامات کے اعزازات اور ایوارڈ لے کر گھر آتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کو اپنے مذہب سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔ ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر وہ ڈاکٹر تو نہ بن سکے سیاست میں آ کر ممبر قومی اسمبلی بن گئے تھے۔ ان کی کالم نگاری لاجواب ہوتی تھی ان کی گفتگو میں ایک جادو سا بھرا ہوتا تھا۔ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ دلیل، فلسفہ ان کی شخصیت کا خاصا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کی علمی قابلیت بڑھتی چلی گئی مذہبی کتابیں ان کے سرہانے رکھی رہتی تھیں۔

عامر لیاقت کے پروگراموں کی ریٹنگ نے دیگر تمام پروگراموں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا پھر ان کی ڈیمانڈ بڑھتی چلی گئی مختلف چینلز نے ان کی منہ مانگی آفرز قبول کرتے ہوئے اپنے چینل کی زینت بنایا اور واقعی یہ جس چینل پر بھی گئے اس چینل کی ریٹنگ بڑھتی چلی جاتی تھی۔ ان کو امریکا، یورپ اور کینیڈا بھی بارہا بلایا گیا ان کے اعزاز میں شاندار تقریبات کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ان کی باتوں ان کی نعتوں پر لوگ جھوم جھوم جاتے تھے۔

ان کی شیریں بیانی کی تعریف تو ہر محفل میں ہوتی تھی جب یہ بولنے پر آتے تھے تو علم کے دریا بہاتے چلے جاتے تھے آج کے دور کے کسی مقرر، کسی اینکر اور کسی نعت خواں میں وہ بات نہ تھی جو بات ڈاکٹر عامر لیاقت کی بیش بہا شخصیت میں تھی میری ان سے کم ملاقاتیں ہوتی تھیں مگر جب بھی ملاقات ہوتی تھی تو وہ کہتے تھے’’ یار ہمدم صاحب! آپ کے دلکش گیتوں کی گونج آج بھی کم نہیں ہوئی ہے یار ! پھر سے فلم انڈسٹری سے وابستہ ہو جاؤ۔ اچھے گیتوں کی فلم انڈسٹری کو ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔‘‘ مگر میں نے تو امریکا جانے کے لیے رخت سفر باندھ لیا تھا۔

پھر جلد ہی میں اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان سے امریکا آ گیا۔ دوستوں سے ملنے کی تڑپ دل میں ہر وقت مچلتی رہتی۔ اسی دوران پتا چلا عامر لیاقت حسین نے متحدہ قومی موومنٹ کو خیر باد کہہ کر عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف جوائن کرلی ہے۔ مجھے ان کا ٹی وی کا وہ خاص کلپ بھی یاد ہے جو میں نے امریکا کے اردو ٹی وی چینلز پر دیکھا تھا۔

یہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ بیٹھے ہوئے کہہ رہے تھے ’’ عمران خان کی پارٹی میں آنا اس طرح ہے کہ جیسے کوئی دلہن اپنے پیا کے گھر جاتی ہے تو وہ آخری دم تک ساتھ رہتی ہے پھر اس کا جنازہ ہی اس گھر سے جاتا ہے۔‘‘ پھر میں نے الیکشن کمیشن کمپین بھی دیکھی جس میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر کا الیکشن جیتے اسی الیکشن میں میرے بھانجے جمال صدیقی نے بھی صوبائی اسمبلی کے ممبرکا الیکشن جیتا تھا۔

پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ عامر لیاقت حسین عمران خان اور اس کی جماعت سے بدظن ہوتے چلے گئے اور سیاست کے گرداب میں پھنستے چلے گئے۔ پھر انھوں نے اپنی پہلی بیوی کو چھوڑا، دوسری بیوی کو اپنایا، پھر دوسری کے بعد تیسری بیوی کی طرف راغب ہوگئے اور یوں یہ ذہنی طور پر منتشر ہوتے چلے گئے۔ یہ بہت ہی حساس اور خود دار انسان تھے یا تو یہ لوگوں کو نہ سمجھ سکے یا پھر ان کی قربت کی سچائیوں کو لوگ ان کے احساسات کے حساب سے قبول نہ کرسکے۔ کچھ نہ کچھ کمی دونوں طرف ہی رہی ہے۔ اضطراب ، بے چینی اور بے کلی ان کی زندگی میں سرائیت کرتی چلی گئی تھی۔

اگر یہ تین اقسام کی بے زاریاں کسی بھی انسان کی زندگی میں داخل ہوجائیں تو وہ کسی طور بھی نارمل انسان نہیں رہ پاتا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے جن لوگوں کی دوستی اور قربت رہی ہے وہ کبھی بھی عامر لیاقت حسین کو ایک ناکام انسان کہہ ہی نہیں سکتے ، بس قدرت کے کچھ تقاضے ہیں کہ کب انسان اپنے حواس میں رہتا ہے اور کب اپنے حواس کھو دیتا ہے، میں جس ہفتہ نیو جرسی امریکا سے کراچی آیا اسی دوران عامر لیاقت حسین کی موت کا سانحہ بھی سامنے آگیا۔ جو ہر محفل کی جان جو بلبل ہزار داستان کہلاتا تھا وہ اب دنیا میں نہ رہا تھا۔ وہ اپنے لاکھوں چاہنے والوں کی آنکھوں کو آنسو دے کر چلا گیا۔ دل دکھ کے سمندر میں ڈوب گیا ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں