دوستو، پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ لاہوریے روزانہ 500 جی بی فری وائی فائی ڈیٹا استعمال کر رہے ہیں۔سیف سٹیز کے ترجمان کے مطابق فری وائی فائی سروس سے شہریوں کی بڑی تعداد مستفید ہورہی ہے، لاہوریے روزانہ 500 جی بی فری وائی فائی ڈیٹا استعمال کر رہے ہیں، یومیہ اوسط 50 ہزار لوگ فری وائی فائی استعمال کر رہے ہیں۔ترجمان کا کہنا ہے کہ فری وائی فائی سروس 100 پوائنٹس پر صارفین کے لیے دستیاب ایک ماہ میں تقریباً 12 لاکھ لوگ فری وائی فائی سروس سے مستفید ہو چکے ہیں اب تک 11 ہزار 775 جی بی ڈیٹا استعمال کیا جا چکا ہے۔سیف سٹیز ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر سیف سٹیزاتھارٹی ایمرجنسی میں سہولت کیلئے فری وائی فائی سروس فراہم کر رہی ہے، شہری کسی بھی ایمرجنسی میں فری وائی فائی کے ذریعے پولیس اور اپنے پیاروں سے رابطہ کر سکتے ہیں شہری فری وائی فائی سروس سے ویمن سیفٹی ایپ، پنجاب پولیس ایپ اور واٹس ایپ استعمال کر سکتے ہیں۔ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ فری وائی فائی سروس صرف ایمرجنسی میں استعمال کیلئے ہے، فری وائی فائی کے ذریعے مختلف اپلیکشن کو ڈاؤن لوڈ بھی کیا جا سکتا ہے، سروس ٹیکسی رائیڈ بک کرانے کیلئے بھی استعمال کی جاسکتی ہے، فری وائی فائی ایمرجنسی سروس ویڈیو سٹریمنگ یا انٹرٹینمنٹ کیلئے نہیں ہے، سروس فیس بُک، یوٹیوب، ٹک ٹاک اور ایسی دیگر انٹرٹینمنٹ ایپس کیلئے نہیں ہے۔
وائے فائے کے حوالے سے کچھ عرصے قبل برطانیہ میں ایک تحقیقاتی سروے میں شہریوں سے سوال کیا گیا کہ ایک طرف اچھا وائی فائی کنکشن ہوں اور دوسری طرف آپ کے ماں باپ، تو آپ کس کو ترجیح دیں گے؟ اکثریت نے ایسا جواب دیا کہ سن کر آپ کی حیرت کی انتہانہ رہے گی۔ تحقیقاتی سروے میں کئی چیزوں کی ایک فہرست بنائی گئی تھی اور شہریوں کو انہیں اپنی پسند اور ترجیح کے لحاظ سے ترتیب دینے کو کہا گیا تھا اور حیران کن طور پر واضح اکثریت نے اچھے وائی فائی کو اپنے والدین پر فوقیت دے ڈالی۔ہاسپیٹلٹی کمپنی ‘ٹریولاج یوکے’ کے ماہرین کی طرف سے کیے گئے اس سروے میں سب سے زیادہ لوگوں نے خوشگوار گھرانے، فیملی ٹائم اور وفادار شریک حیات کو منتخب کیا۔ دوسرے نمبر پر لوگوں نے اچھی صحت، تیسرے نمبر پر نیشنل ہیلتھ سروسز، چوتھے نمبر پر اچھے وائی فائی کنکشن، پانچویں نمبر پر دوستوں اور فیملی کے ساتھ قہقہے لگا کر ہنسنا اور گپ شپ کرنا، چھٹے نمبر پر بااعتماد دوستوں اور ساتویں نمبر پر لوگوں نے والدین کو ترجیح دی۔ آٹھویں نمبر پر باغیچے کے ساتھ اچھے گھر، 9ویں نمبر پر پالتو جانور اور 10ویں نمبر پر سوشل میڈیا چینلز کو ترجیح دی۔
ان خبروں سے آپ پر یہ تو واضح ہوگیا ہوگا کہ لوگ اب رشتے ناطے، تعلق داری اور کسی بھی چیز پر اپنے موبائل فون اور وائی فائی کو اہمیت دینے لگے ہیں۔۔ باباجی وائی فائی کو ”وائف آئی” کہتے ہیں، اور کہتے بھی لفظوں کو چباچبا کر۔۔ وائف آئی یعنی بیوی کی آنکھ۔۔ ہم نے باباجی سے اس کی تشریح کرنے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں سمجھی کہ ہمیں اندازہ ہے کہ وائی فائی کتنی اہمیت رکھتا ہے، اور اس کے اثرات کتنے دوررس ہوتے ہیں۔۔ وائی فائی کا دائرہ محدود ہوتا ہے جبکہ وائف کا دائرہ لامحدود ہوتا ہے ۔۔اسی لئے شوہر جتنا بھی دور رہے وائف کے کوریج ایریا میں ہی رہتا ہے۔۔۔کچھ دیر کے لئے تصور کریں کہ پرانے زمانے میں وائی فائی ہوتا تو آج تاریخ کا دھارا ہی تبدیل نظر آتا۔۔ ہمارے پیارے دوست کے مطابق اگر پہلے زمانے میں وائی فائی یا انٹرنیٹ ہوتا تو ۔۔اکبر بادشاہ نے انارکلی کو دربار کے اس حصے میں قید کیا جہاں وائی فائی کے سگنل نہیں آتے تھے۔۔شہزادہ سلیم کا اکاونٹ ہیک کروا کے اس کے سارے میسجز اس کی امی جان کو سب دربار والوں کے سامنے سنائے گئے۔ ۔اور بتایا جاتا کہ یہ دیکھو ملکہ عالیہ انار کلی نے شہزادے کو کہا بھی تھا کہ میری تصویر دیکھ کر ڈیلیٹ کر دینا مگر اس نے نہیں کی۔۔ہیر کو سیلفی لیتے کیدو نے دیکھ لیا اور اسی وقت اس کے گھر جا کر سب کو شور مچا کر بتایا کہ دیکھو اس کی حرکتیں کھیتوں کے پیچھے کھڑی ہو کر منہ وینگے چیبے کر کے سیلفیاں لے رہی تھی۔رانجھے کو بلا کر اس کے موبائل کا پیٹرن پوچھا جائے ابھی پتہ چل جائے گا یہ سلسلہ کب سے جاری ہے۔۔سسی سے سوال پوچھے جاتے کہ مٹی کے گھڑے میں موٹی پن والا چارجر کیوں چھپایا تھا۔ کیوں کہ سارے گاؤں والوں کے پاس نئے موبائل ہیں سوائے پنوں کے۔۔کیوں کہ پنوں کے پاس تو فقط چھوٹا سا نوکیا تینتیس دس ہے۔۔فرض کریں اکبر بادشاہ کے زمانے میں وائے فائے موجود ہے، پھر دربار اکبری میں کیا صورتحال ہوگی۔۔اکبر بادشاہ نے بھرے دربار میں بیربل سے تین سوال پوچھے اور شرط رکھی کہ تینوں کا جواب ایک ہی ہو ۔1۔دودھ کیوں ابل جاتا ہے؟2۔ پانی کیوں بہہ جاتا ہے؟3۔سبزی کیوں جل جاتی ہے؟ سارے دربار میں سناٹا چھا گیا۔۔وزراء کو سانپ سونگھ گیا۔۔۔اور سب اپنی جگہ بیٹھے سوچنے لگے۔۔ کیونکہ سوال بیربل کے لیے تھے اس لیے کسی کے چہرہ پہ پریشانی کے آثار نہیں تھے۔ ْْ۔۔کچھ دیر بعد بیربل کی آواز نے سکوت توڑا۔۔بادشاہ کا اقبال بلند ہو۔ بادشاہ سلامت جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔اکبر بادشاہ نے نہایت گرج دار اور رعب دار آواز میں بولا
جان کی امان دی جاتی ہے۔بیربل بولا، بادشاہ سلامت فیس بک اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ۔۔یہ سن کر اکبر بادشاہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا اور اپنے شاہی مسند سے اٹھ کر۔۔۔ بیربل کو گلے لگا کر کہا ۔۔ مجھے فالو کرو۔۔وائی فائے پر نوجوان نسل سارا دن سوشل میڈیا پر مصروف رہتے ہیں۔۔ ایک لڑکے نے اپنی گرل فرینڈ سے شکوہ کیا۔۔ بے بی تم بدل گئی ہو۔۔ بے بی نے جواب دیا۔۔ اب کریم ختم ہوگئی ہے تو میرا کیا قصور۔۔ ایک بچہ صحن میں گر پڑا، اماں نے تازہ تازہ ”پوچا” لگایا ہوا تھا، فرش گیلا تھا اس لئے پیر سلپ ہوگیا۔۔ بچہ روتے ہوئے ماں سے کہتا ہے۔۔ امی چوٹ لگ گئی، کیا لگاؤں؟آگے ماں بھی ماڈرن زمانے کی تھیں۔۔ برجستہ بولیں۔۔ اسٹیٹس لگا اسٹیٹس۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بال سفید کرنے میں زندگی نکل جاتی ہے، کالے تو آدھے گھنٹے میں ہوجاتے ہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔