تحریر : علی عمران جونیئر
سینئر صحافی اور معروف اینکر پرسن طلعت حسین جیونیوز پر بلاشبہ بھاری معاوضے پر ملازمت کررہے تھے۔۔پپو بتارہا تھا کہ چوالیس لاکھ روپے ماہانہ کا پیکیج تھا۔۔ہماری میڈیا انڈسٹری میں ایک ٹرینڈ بڑی شدت سے زور پکڑتا جارہا ہے، اگر کوئی مشہور ومعروف میڈیا سے تعلق رکھنے والی ہستی اگر اپنے ادارے کو چھوڑنا چاہتی ہے تو وہ فوری طور پر ٹوئیٹر پر اپنا استعفا ڈال دیتی ہے، اس ٹرینڈ کے بانی کامران خان تھے جنہوں نے بول بحران کے دنوں میں ٹوئیٹر پر بول چھوڑنے کا اعلان کرکے اس روایت کی بنیاد رکھی۔۔۔اب طلعت حسین نے بھی ایسا ہی کیا، لوگوں کو بتادیا کہ ان کا جیومیں یہ آخری مہینہ ہے۔۔ اس کے بعد وہ صحافت تو نہیں چھوڑیں گے لیکن جیوچھوڑدیں گے۔۔۔
اب سوال یہ بنتا ہے کہ طلعت حسین نے جیو کیوں چھوڑا؟؟ کیا انہیں جیوچھڑانے کیلئے کسی نے “پریشر” ڈالا تھا؟؟ کیا جیومیں طلعت حسین کو آزادانہ کام نہیں کرنے دیاجارہا تھا؟؟ کیا طلعت حسین پر جیو نے کچھ پابندیاں لگائی تھیں ؟ چلیں پہلے ان سوالوں کا جواب تلاش کرتے ہیں، پھر آگے بات کرتے ہیں۔۔۔
طلعت حسین نے جیونیوزکیوں چھوڑا؟ پہلے سوال کا جواب دینے سے پہلے آپ کو ایک مثال دیتا چلوں۔۔اگر آپ کسی چینل میں رپورٹر ہیں، آپ نے کوئی خبر فائل کی،اب اس خبر کو چلانا نہ چلانا چینل کی مرضی پرہے، بطور رپورٹر آپ اپنے کام کا ماہانہ معاوضہ وصول کررہے ہیں، اس لئے اگر چینل آپ کی رپورٹ نہیں چلاتا تویہ چینل کی مرضی ہے، اس پر اگر آپ اپنے چینل کو دھمکیاں دینے لگ جائیں کہ میری رپورٹ چلاؤ ،اگر نہیں چلانی تو پھر میں اسے سوشل ویب سائیٹس پر ڈال دونگا۔۔۔ایسا ہی کچھ طلعت صاحب کے ساتھ ہورہا تھا، وہ چاہتے تھے کہ ان کا کہا حرف آخر ہے،وہ جیسا بول رہے ہیں ویسا ہی چینل پر چلے، وہ جو دکھانا چاہتے ہیں چینل اسے لازمی دکھائے۔۔۔یہی وجہ تھی کہ کئی بار ایسا ہوا کہ چینل نے اگر کچھ چلانے سے روکا تو انہوں نے اپنے ٹوئیٹر پر ڈال دیا۔۔انتہائی سادہ سی بات ہے،اگر آپ کہیں ملازمت کرتے ہیں تو پھر وہاں کی پالیسی بھی اپناتے ہیں، پالیسی سے بغاوت کا مطلب ہے کہ آپ کی اس ادارے میں جگہ بالکل نہیں۔۔
طلعت حسین کی جیونیوز سے علیحدگی کو مطیع اللہ جان اور نصرت جاوید سے جوڑا جارہا ہے، اور مجموعی طور پر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مطیع اللہ جان ، طلعت حسین اور نصرت جاوید کو کسی نامعلوم پریشر کی وجہ سے ان کے اداروں نے فارغ کیا۔۔ایسا ہرگز،ہرگز نہیں۔۔ چلیں یہاں بھی ایک مثال دیتا چلوں، جیونیوز پر آئی ایس آئی کے حاضرسروس چیف کی تصویر آٹھ گھنٹے اسکرین پردکھا کر الزام لگایاجاتا رہا کہ حامد میر پر فائرنگ کیس میں ملوث ہیں۔۔الزام بھی حامد میر کے سگے بھائی نے لگایاتھا،جیوپر لائیو بیپر میں۔۔ لیکن ملک کی انتہائی طاقتور ایجنسی ایک صحافی کو جیونیوز سے نہیں نکلواسکی۔۔حامد میر جب جیوچھوڑ کر جی این این گیا تو اپنی مرضی سے، واپس آیا اپنی مرضی سے۔۔ یہ “پریشر” کون ڈالتا ہے ؟ کہاں سے آتا ہے؟ اس کے ٹارگٹ کیا ہوتے ہیں؟ یہ سوالات اپنی جگہ،جس کے جواب تلاشنا ہوں گے۔۔ لیکن جو لوگ بھی طلعت حسین، مطیع اللہ جان اور نصرت جاوید کی برطرفی کو کسی پریشر کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، غلطی پر ہیں۔۔ چلیں ان تینوں کا باری باری پوسٹ مارٹم کرلیتے ہیں۔۔۔ مطیع اللہ جان وقت نیوز سے فائر ہونے والے اکیلے اینکر نہیں۔۔ان کی برطرفی سے پہلے اور بعد میں بھی سیکنکڑوں ورکرز کو نکالاگیا اور اب وہ ادارہ ہی بند کردیاگیا۔۔اگر پریشر تھا تو یہ کیسا پریشر تھا کہ مالکان نے صرف مطیع اللہ جان کو نکالنے کے لئے سینکڑوں ورکرز کو نکال کر اپنا ادارہ ہی بند کرڈالا۔۔چلیں نصرت جاوید صاحب کی بات کرلیتے ہیں، ڈان میں بھی برطرفیاں، ڈاؤن سائزنگ جاری تھیں، یہ ادارہ بھی اخراجات میں کمی کے لئے کئی جگہ “کٹ ” لگارہا تھا،ایسے میں جب انہیں پتہ چلا کہ نصرت جاوید کا پروگرام پچھلے کئی ماہ سے مارکیٹنگ کی مد میں ایک روپیہ بھی کما کر نہیں دے رہا تھا تونصرت جاوید صاحب کو ایک ماہ کا ٹائم دیا گیا لیکن سینیئر صحافی نے اس ٹائم کو لینے سے انکار کرتے ہوئے فوری استعفے کو ترجیح دی۔۔ اب اس میں کون سا اور کہاں کا پریشر؟؟؟
طلعت حسین کے جیونیوز چھوڑنے کے حوالے سے ایک بات یہ بھی مارکیٹ میں گرم ہے کہ ۔۔میڈیا انڈسٹری میں پیدا حالیہ بحران کی وجہ سے گذشتہ چند دنوں سے جیوانتظامیہ اور طلعت حسین کے درمیان خطیر تنخواہ کے معاملے پر اختلافات پیدا ہو گئے تھے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی وی انتظامیہ نے طلعت حسین کو پیش کش کی تھی کہ اگر انہیں تنخواہ میں 50 فیصد کٹوتی منظور ہے تو وہ اپنا پروگرام جاری رکھ سکتے ہیں تاہم طلعت حسین نے جیو انتظامیہ کی اس پیش کش کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ماہ کے نوٹس پر ادارہ چھوڑ دیں گے جس پر رواں ماہ کے آغاز میں ہی جیوانتظامیہ نے طلعت حسین اور پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ کی ٹیم کو فارغ کرنے کے نوٹس دے دئیےتھے۔۔ اب اس میں کیسا پریشر اور کیسا دباؤ؟؟؟؟
پپو نے ایک اور اطلاع دی ہے، طلعت حسین نے اپنے قریبی احباب کو بتایا ہے کہ انہوں نے گزشتہ دنوں برطرف کئے گئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کا خصوصی انٹرویو کیا تھا، جس کے لئے وہ بار بار جیونیوزکی انتظامیہ کو کہہ رہے تھے کہ وہ انٹرویو چلادیں، لیکن انتظامیہ مان نہیں رہی تھی، لہذا جہاں صحافت فری نہ ہو، ہاتھ پیر بندھے ہوں تو وہاں کام کرنے کا کیا فائدہ۔۔؟؟
ساری باتیں آپ کے سامنے رکھ دی ہیں۔۔جو کچھ بھی ہے طلعت حسین میڈیا کا ایک بڑا نام ہے، مکمل پروفیشنل صحافی ہیں۔۔یہ پیراشوٹر نہیں، اور نہ صحافت کے علاوہ انہیں کوئی اور کام آتا ہے۔۔ پروفیشنل صحافی کی شان ہی یہ ہوتی ہے کہ جہاں وہ اپنے کام میں رکاوٹیں سمجھے وہاں سے اپنے راستے الگ کرلیتا ہے۔۔لیکن ان کی جانب سے مسلسل یہ تاثر دینا کہ موجودہ حکومت کے دوران انہیں کام میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑہا ہے یا پھر کوئی نامعلوم پریشر انہیں کام نہیں کرنے دے رہا، اس سے مجھے قطعی اختلاف ہے، وہ اس بار جب سے جیومیں آئے ہیں، کیا انہیں کام نہ کرنے دیئے جانے کی شکایت پہلی بار ہوئی ہے؟؟ یہ حکومت تو اگست میں آئی ہے، اس سے پہلے کیا وہ اپنے شوکو نہ چلانے کے شکوے ٹوئیٹر پر نہیں کرچکے تھے؟؟ طلعت حسین صاحب کا میڈیا میں جو مقام ہے یقینا ان پر پریشر ہوتا ہوگا لیکن کیا پریشر ڈالنے والوں کو اندازہ نہیں ہوتا ہوگا کہ وہ کس پر پریشر ڈال رہے ہیں؟؟ حکومت مخالف کا لیبل کسی صحافی یا اینکر پر ہونا اچھی بات ہے لیکن پھر وہ صحافی یا اینکر ہر حکومت مخالف ہو، ہمیشہ اپوزیشن کی صحافت کرے، یہ ایک اور لمبی بحث ہے جس پربہت کچھ کہا،سنا جاسکتا ہے۔۔ (علی عمران جونیئر)