خصوصی رپورٹ۔۔
پیغام رسانی کیلئے استعمال ہونے والی مقبول ترین ایپ ’’واٹس ایپ‘‘ کی جانب سے دنیا بھر میں اپنے دو ارب سے زائد صارفین کیلئے اپنی پرائیوسی پالیسی میں تبدیلیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔نئے سال کی آمد کے ساتھ، پانچ جنوری کے دن ایپ کی جانب سے صارفین کو ان کے فونز پر پیغام بھیجا گیا کہ اگر وہ نئی پالیسی سے اتفاق نہیں کریں گے تو ان کے اکائونٹس ڈیلیٹ کر دیے جائیں گے۔ آسان الفاظ میں کہیں تو ایسے صارفین یہ ایپ استعمال نہیں کر سکیں گے۔ایپ کے اندر ہی نوٹیفکیشن بھیج کر صارفین کو بظاہر ’’الٹی میٹم‘‘ دیا گیا ہے کہ وہ 8؍فروری تک لازمی طور پر کمپنی کی شرائط و ضوابط سے اتفاق کریں بصورت دیگر ان کے اکائونٹس ختم کر دیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ یہ پالیسی یورپی یونین کے صارفین کیلئے نہیں ہے کیونکہ ان ممالک نے فیس بک انتظامیہ کے ساتھ پرائیوسی کے حوالے سے علیحدہ معاہدے کر رکھے ہیں۔ دیکھا جائے تو ترقی یافتہ ممالک اپنے ملک کے صارفین کا ڈیٹا نہ صرف محفوظ بناتے ہیں بلکہ قوانین بھی بناتے ہیں۔ اگر مختلف کمپنیاں ان قوانین کی خلاف ورزی کریں تو ان پر جرمانے بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں دیکھیں تو یورپی یونین مختلف پالیسیوں کی خلاف ورزی پر ماضی میں امیزون، فیس بک، گوگل اور دیگر کمپنیوں پر کروڑوں یورو مالیت کے جرمانے بھی عائد کر چکی ہے۔
معروف جریدے فوربز کی رپورٹ کے مطابق، واٹس ایپ کی نئی پالیسی کو عالمی سطح پر متنازع قرار دیا جا رہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹیسلا کے بانی ایلون مسک نے اپنے مداحوں کو سگنل ایپ استعمال کرنے کا مشورہ دیا تو ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو جیک ڈورسی نے بھی ان کی ٹوئیٹ کو ری ٹوئیٹ کیا۔ سینسر ٹاور نامی ادارے کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اس ٹوئیٹ کے بعد تقریباً ایک لاکھ افراد نے فوری طور پر سگنل ایپ ڈائون لوڈ کی۔
کمپنی کے سرور پر آنے والے اس قدر زبردست ٹریفک کی وجہ سے سگنل ایپ کچھ دیر کیلئے بند بھی ہوگئی جس کیلئے انتظامیہ کی جانب سے معذرت کا اظہار کرتے ہوئے تمام صارفین کو خوش آمدید کہا اور خوشی کا اظہار بھی کیا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے معروف ٹیک کمپنی مائیکروسافٹ نے بھی اپنے صارفین سے کہا ہے کہ وہ اسکائپ کا استعمال بے خوف ہو کر کر سکتے ہیں کیونکہ صارفین کی پرائیوسی کمپنی کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک کی ملکیت سمجھی جانے والی ایپ ’’واٹس ایپ‘‘ کی نئی پالیسی سے صارفین کے ڈیٹا کے حوالے سے کمپنی کا اختیار بڑھ جائے گا اور کاروباری ادارے فیس بک کی سروسز کو استعمال کرتے ہوئے واٹس ایپ پر صارفین کی بات چیت کو نہ صرف اپنے پاس محفوظ کر سکیں گے۔
اس نئی پالیسی کو واٹس ایپ نے اپنی ویب سائٹ پر بھی جاری کر دیا ہے جس کے مطابق جب کوئی صارف میڈیا فائل کسی پیغام میں کسی کو فارورڈ کرے گا تو اس فائل کو عارضی طور پر انکرپٹڈ انداز سے اپنے سرور پر محفوظ کر لیا جائے گا تاکہ اُس پیغام کو مزید فارورڈ کرنے کا عمل تیز رفتار اور موثر بنایا جا سکے۔
کمپنی کی جانب سے واٹس ایپ استعمال کرنے والے صارف کی جمع کی جانے والی تفصیلات کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جس میں فون کا ماڈل، آپریٹنگ سسٹم، ہارڈ ویئر ماڈل، موبائل فون سروس کے سگنل کی طاقت، ٹائم زون، انٹرنیٹ کنکشن کا نام اور آئی پی ایڈریس، سروس استعمال کرنے کا مقام (لوکیشن) وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ واٹس ایپ یہ معلومات اُس وقت بھی حاصل کر سکے گا جب صارف اپنے فون میں لوکیشن سروس کو بند رکھے گا۔
واٹس ایپ کی نئی پالیسی کو سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ واٹس ایپ کی مقبولیت کو دیکھ کر فیس بک نے اسے فروری 2014ء میں خرید لیا تھا۔ اس طرح ’’دی فیس بک کمپنی‘‘ میں ایک اور ایپلی کیشن کا اضافہ ہوگیا۔فیس بک کمپنیز میں اس وقت انسٹا گرام، واٹس ایپ، آکیولس، کوم، لائیو ریل اور تھریڈسی نامی ادارے یا کمپنیاں شامل ہیں جو اپنے صارفین کا ڈیٹا فیس بک کے ساتھ شیئر کرتی ہیں۔فیس بک بنیادی طور پر اشتہارات کے ذریعے چلنے والی ایک کاروباری کمپنی ہے۔ اگر آپ فیس بک کھولیں تو (لیپ ٹاپ پر) اس کے دائیں یا بائیں جانب یا پھر فون میں فیس بک کی فیڈز میں صارفین کو اشتہارات نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ ویڈیوز میں بھی اشتہارات دکھائے جاتے ہیں۔ حیران کن انداز سے یہ اشتہارات صارفین کی دلچسپی کو مد نظر رکھ کر ایپ میں بھیجے جاتے ہیں۔
صارفین کی یہ دلچسپی فیس بک کو اس وقت معلوم ہو جاتی ہے جب وہ اپنے فون میں فیس بک ایپ انسٹال کرکے اسے اپنی لوکیشن، اپنی گیلری، اپنے کانٹیکٹس، کیمرا، مائیک وغیرہ کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ صرف فیس بک اپنے صارف کی آواز سن سکتا ہے بلکہ اس کے فون کے استعمال کے طریقہ کار کو بھی نوٹ کر رہا ہوتا ہے۔
یہ سب معلومات استعمال کرتے ہوئے ہی فیس بک مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے ایلگوریتھم کے ذریعے جائزہ لیکر اپنے صارفین کو ان کی پسند کی معلومات فراہم کرتا ہے۔۔فیس بک کا کہنا ہے کہ یہ بزنس ماڈل کاروباری کمپنیوں کیلئے فائدہ مند ہے کیونکہ انہیں بھی ایلگوریتھم کے ذریعے وہی معلومات پہنچائی جاتی ہے جو صارف کیلئے ضروری ہیں جس سے ان کی فروخت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کاروباری ماڈل میں اسے بیسٹ یوزر ایکسپیرینس کہا جاتا ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو چونکہ فیس بک نے اپنے پلیٹ فارمز میں اضافہ کرکے اس میں انسٹا گرام اور واٹس ایپ کو شامل کر لیا ہے اس لئے جب صارف اپنی معلومات ان پلیٹ فارم پر شیئر کرتا ہے تو اس کی نجی زندگی میں ان کمپنیوں کی مداخلت بڑھ جاتی ہے۔
آن لائن رائٹ ٹوُ پرائیوسی کے حوالے سے مختلف ملکوں نے ان کمپنیوں کیلئے اپنے اپنے قوانین نافذ کر رکھے ہیں کیونکہ دنیا بھر میں آن لائن ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ہیکرز سے خطرات لاحق ہیں جو صارفین کا ڈیٹا چوری کرکے اسے غلط استعمال کر سکتے ہیں جو ایک لحاظ سے مختلف ملکوں کیلئے قومی سلامتی کا خطرہ بھی بن سکتا ہے۔دوہزار پندرہ میں اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں فیس بک کے تقریباً 8؍ سے 9؍کروڑ صارفین کا ڈیٹا لیک ہوگیا تھا جس میں پرسنل پروفائل، ان کی پسند ناپسند، ان کے تبصرے، کمنٹس کرنے کے انداز وغیرہ جیسی معلومات شامل تھین۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ ڈیٹا برطانوی کمپنی کیمبرج اینالیٹیکا کے پاس چلا گیا تھا۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ امریکا میں انتخابات میں رائے عامہ کو مخصوص سمت میں موڑنے کیلئے بھی اسی ڈیٹا کا استعمال ہوا۔اس لحاظ سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ صارفین کے ڈیٹا کو وسیع پیمانے پر عوامی رائے عامہ تبدیل کرنے یا پھر لوگوں کی ذہن سازی کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ڈیٹا کے اس زبردست لیک کے حوالے سے پیدا ہونے والی ناخوشگوار صورتحال پر فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کو امریکی کانگریس کمیٹی کے روبرو پیش ہو کر یقین دلانا پڑا تھا کہ صارفین کا ڈیٹا کسی کو نہیں دیا جاتا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ کسی بھی ملک کی حکومت کا کام ہے کہ وہ اپنے ملک کے صارفین کا نجی ڈیٹا دیگر ملکوں کی کمپنیوں تک پہنچنے سے بچائے کیونکہ اسے دیگر مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی اور یورپی یونین کی ڈیٹا ریگولیٹری ایجنسیوں نے فیس بک کے ساتھ ڈیٹا کے تحفظ کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے صارفین کا ڈیٹا انہی ملکوں میں موجود سرورز پر محفوظ رکھا جاتا ہے۔
آن لائن ڈیٹا پرائیوسی کو مزید سمجھنے کیلئے معروف ویڈیو اسٹریمنگ سائٹ نیٹ فلکس پر۔۔ دا گریٹ ہیک اور ۔۔ دا سوشل ڈائلما۔۔کے نام سے دو دستاویزی سیریز موجود ہیں جنہیں دیکھ کر قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح صارفین کے آن لائن ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے مختلف ادارے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔یہ صورتحال دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ واٹس ایپ کس طرح صارفین کا ڈیٹا فیس بک اور پھر فیس بک اپنے مفادات کیلئے دیگر کاروباری کمپنیوں کو فراہم کرے گا۔ واٹس ایپ کی سابقہ پالیسی میں کہا جاتا تھا کہ صارفین کی پرائیوسی کمپنی کا نصب العین ہے اور صارفین کو محفوظ ترین یعنی انکرپٹڈ سروسز فراہم کی جاتی ہیں۔لیکن اب نئی پالیسی میں یہ باتیں شامل نہیں ہیں۔ یعنی صارفین کی وہ معلومات جو پہلے واٹس ایپ انتظامیہ فیس بک کے ساتھ شیئر نہیں کرتی تھی؛ اب وہ فراہم کی جائیں گی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اگر آپ نئی پالیسی سے اتفاق نہیں کریں تو 8؍ فروری کے بعد آپ واٹس ایپ استعمال نہیں کر سکیں گے اور صارفین کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے فیس بک کی کوشش رہی ہے کہ وہ فیس بک کو دیگر ایپس کے ساتھ ہم آہنگ کر دے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں فیس بک میں اب میسینجر، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے کالنگ آپشن میں میسنجر روم کالنگ کے آپشنز نظر آتے ہیں۔ تو آخر واٹس ایپ ایک صارف کی کون سی معلومات فیس بک کو فراہم کرے گا۔اس میں آپ کا نام، فون نمبر، لوکیشن، آئی پی ایڈریس، موبائل نیٹ ورک، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر، ٹائم زون، فون ماڈل، آپریٹنگ سسٹم، بیٹری کا پرسنٹیج، سگنل کی طاقت، فون کا آئی ایم ای آئی (انٹرنیشنل موبائل ایکوئپمنٹ آئی ڈی)، پروفائل کی تفصیلات، ڈسپلے فوٹو، اسٹیٹس پر رکھی جانے والی معلومات، صارف کے کونٹیکٹس اور واٹس ایپ استعمال کرنے والے کونٹیکٹس اور ساتھ ہی ان کی تصاویر، صارف آخری مرتبہ کب آن لائن ہوا، صارف کی گیلری، صارف کے وصول اور ارسال کیے جانے والے پیغامات (جو وصول نہ کیے جانے کی صورت میں تیس روز تک واٹس ایپ کے سرور پر محفوظ رہیں گے) وغیرہ شامل ہیں۔کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں واٹس ایپ کے ذریعے مالی لین دین کا آپشن بھی موجود ہے۔ ایسے صارفین کے ٹرانزیکشن کو بھی فیس بک کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
واٹس ایپ کے مطابق، پیغام رسانی کیلئے اینڈ ٹوُ اینڈ انکرپشن بدستور فراہم کی جاتی رہے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک صارف کی جانب سے کسی کو بھیجا جانے والا پیغام انکرپٹڈ ہوگا اور جب تک وہ پیغام موصول نہیں ہو جاتا اس وقت تک وہ پیغام انکرپٹڈ ہی رہے گا۔پیغام بھیجنے اور وصول کرنے کے درمیان اگرچہ واٹس ایپ کا سرور موجود رہتا ہے لیکن انکرپشن سروس کا مقصد یہ ہے کہ وہ پیغام واٹس ایپ انتظامیہ سمیت کوئی بھی نہیں پڑھ یا دیکھ سکتا۔ پیغام وصول ہوتے ہی مذکورہ پیغام واٹس ایپ کے سرور سے ختم یعنی ڈیلیٹ ہو جاتا ہے۔
نئی پالیسی کے مطابق انکرپشن سروس بدستور موجود ہے لیکن نئی اور پرانی پالیسی میں فرق یہ ہے کہ ماضی میں واٹس ایپ اپنے صارفین کا ڈیٹا فیس بک سمیت کسی کو نہیں دیتا تھا۔ اب نئی پالیسی کے مطابق دیکھیں تو چونکہ فیس بک کا ماڈل ـ۔ ایڈورٹائزمنٹ بیسڈ۔۔ہے اسلئے اس کی انتظامیہ مالی مفادات کیلئے صارفین کا یہ ڈیٹا حاصل کرکے ایلگوریتھم کے ذریعے اسے مختلف کاروباری کمپنیوں کو فراہم کیے جانے کا امکان ہے۔قیاس ہے کہ اس صورتحال کے بعد واٹس ایپ پر بھی اشتہارات کا سلسلہ شروع ہو جائے جو صارفین کی رائے کو مخصوص سمت میں موڑنے کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ صارفین کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہوتی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ انہیں اس نئی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کا ڈیٹا اہم نہیں ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیں کوئی چیز چھپانے کی ضرورت نہیں لیکن سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ یہ ڈیٹا غلط مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے امیر ترین شخص اور ٹیسلا اور اسپیس ایکس کمپنی کے مالک ایلون مسک نے اپنے مداحوں کو واٹس ایپ چھوڑ کر سگنل نامی ایپ استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔۔آن لائن پرائیوسی کو بچانے کیلئے صارفین واٹس ایپ کے متبادل کے طور پر۔۔ ٹیلی گرام۔۔ نامی ایپ کو بھی استعمال کرسکتے ہیں۔۔ گزشتہ چند روز کے دوران ان دونوں ایپس کی طلب میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صارفین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے ان کیلئے ان کا نجی ڈیٹا اہم ہے یا واٹس ایپ کا استعمال۔(بشکریہ جنگ)۔۔
