تحریر: علی انس گھانگھرو۔۔
وزیراعظم عمران خان خود کو ذوالفقار علی بھٹو پیش کر کے کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں. عمران خان کا دور حکومت تقریباً بھٹو صاحب کے دور اقتدار جیسا ہی ہے. ذوالفقار علی بھٹو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں کانٹے کی طرح تھے. عمران خان نے کافی کوشش کی کہ بھٹو جیسی اہمیت حاصل ہو جائے
وزیر اعظم جس وقت Absolutely not کہا اس وقت کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ امریکہ عمران خان سے ڈو مور کرنے کا نہیں کہا. ڈو مور کہنے کے بجائے افغان سے نکل گیا تھا۔ او آئی سی کانفرنس کا پاکستان میں میزبانی کا کریڈٹ لیا لیکن کشمیر کے متعلق کوئی قرارداد بھی پاس نہ کرا سکا. دیکھا جائے تو عمران خان نے بھارت سے شکست تسلیم کر کے کشمیر سے دستبرداری اختیار کی. اور عمران خان نے بھٹو کی طرح کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کا کریڈٹ انہیں ملے۔طبھٹو نے ملک کو 73 کا آئین دیا، شناختی کارڈ کا اجراء کیا، اسٹیل مل کا تحفہ دیا، ایٹم بم کا تحفہ دے کر ملک کو مضبوط کر دیا۔ عمران خان کے دور اقتدار میں ملک معاشی تباہی پر پہنچ گیا، آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے. اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا، ڈالر اور پیٹرول، بجلی تیل اور گیس کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کردیا، عوام سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، مہنگائی بھوک بے روزگاری کو جنم دیا۔ لوگوں کی زندگی بدتر سے بدتر ہو گئی. تین سالوں میں ملک پر 18000 ہزار ارب روپے سے زائد کا قرض لیا اور مزید مقروض کیا. دیکھا جائے تو پاکستان میں آج تک کسی بھی وز اعظم نے اپنے پانچ سالہ اقتدار مکمل نہی کئے ہیں. سوائے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے والے جرنیلوں نے ایک ایک دہائی تک اقتدار کا مزہ لیا ہے. پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان ہوں یا شہید ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی مگر پانچ سالہ مدت پوری نہ کر سکی. مسلم لیگ کے نواز شریف تین بار وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے ہیں مگر تینوں بار وزیراعظم بننے کے بعد اپنی مدت پوری نہ کر سکے. دو مرتبہ حکومت ختم کردی گئی اور تسیری بار نااہل قرار دے کر نکالا گیا ہے. تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمجھ رہے تھے کہ وہ وزیر اعظم کی پانچ سالہ مدت پوری کریں گے اور 2023 کے انتخابات میں دوبارہ الیکشن جیت کر وزیر اعظم بن جائیں گے. شاید مارچ یا اپریل مہینے اس کیلئے آخری مہینہ ثابت ہوں. اگر عمران خان اقتدار چھوڑ کر مستعفی ہوتے ہیں تو ٹھیک عدم اعتماد کی چھری بھی پہلے سے تیز کردی گئی ہے. اپوزیشن کے اسلام آباد میں دھرنے بھی شروع ہو گئے ہیں. جے یو آئی، نواز لیگ اور پیپلزپارٹی اب عمران خان کا پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہیں. ایک نظر ڈالتے ہیں پاکستان میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے اقتدار مدت سے پی ٹی آئی کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی اقتدار تک. پاکستان آزاد ہونے کے بعد ہندوستانی نزاد اردو زبان سے تعلق رکھنے والے لیاقت علی خان کو گورنر جنرل آف پاکستان نے 15 اگست 1947ع کو پہلا وزیر اعظم منتخب کیا. لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951ع کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں میں شہید کیا گیا کر دیا گیا۔ لیاقت علی خان 15 اگست 1947 ع سے 16 اکتوبر 1951 تک چار سال تک اقتدار میں رہے. دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین 17 اکتوبر 1951 ع سے 17 اپریل 1953 تک دو سال اقتدار میں رہے. تیسرے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ 17 اپریل، 1953 ع سے 12 آگسٽ 1955 ع تک 2 سال اقتدار میں رہے. چوتھے وزیراعظم پاکستان چوہدری محمد علی 12 آگسٽ 1955 سے 12 سیپٹمبر 1956 ع ایک سال کیلئے وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے. پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی 12 سیپٹمبر 1956 ع سے 17 اکتوبر 1957 ایک سال تک اقتدار میں رہے. چھٹے وزیر اعظم پاکستان ابراہیم اسماعیل چندریگر 17 اکتوبر 1957 سے 16 ڈسمبر، 1957 ع تک پانچ ماہ تک اقتدار میں رہے. ساتویں وزير اعظم ملک فیروز خان نون 16 ڈسمبر 1957 ع سے 7 اکتوبر 1958 تک ایک سال تک اقتدار میں رہے. 6 شخصیات 1951ء سے 1958ء تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہیں اور ان کے بعد صدر پاکستان اسکندر مرزا نے 1958ع میں اس عہدے کو ختم کر دیا۔ پھر جنرل یحییٰ خان نے 8 ویں وزير اعظم نور الامین کو 7 ڈسمبر 1971 ع کو وزیر اعظم بنایا جو 20 ڈسمبر 1971 ع تک 13 روز کیلئے وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے. ملک میں عام انتخابات ہوئے. پاکستان کا 9 واں وزير اعظم ذوالفقار علی بھٹو انتخابات میں اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے وزیر اعظم منتخب ہوئے جو 14 آگست 1973 ع سے لیکر 5 جولائی 1977 ع تک چار سال وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے. سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے تختا الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کیا. لیاقت علی خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو دوسرے وزیراعظم تھے جو اقتدار کے دوران پھانسی دے کر شہید کردیئے گئے. ضیاء الحق نے 1977ء میں وزیراعظم کے عہدے کو ختم کرتے ہوئے خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر بیٹھ گئے. جنرل ضیاء الحق نے 10 ویں وزير اعظم کیلئے محمد خان جونیجو 24 مارچ 1985 کو نامزد کیا اور 29 مئی 1988ع کو اسے بھی رخصت کردیا. جنرل ضیاء الحق جہاز حادثے میں جاں بحق ہوگئے. 88 ع کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے دی گئی اور یوں محترمہ بے نظیر بھٹو 11 ویں وزیر اعظم پاکستان کی پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم منتخب ہوئی. آپ 2 ڈسمبر 1988 ع سے 6 اگست 1990 ع تک دو سال تک اقتدار میں رہیں. آپ کے اقتدار کا خاتمہ کیا گیا. محترم غلام مصطفيٰ جتوئی کو پہلا نگران وزيراعظم بنایا گیا جو 6 اگست 1990 سے 6 نومبر 1990 ع چار ماہ تک نگران وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے. 12 وزير اعظم پاکستان میاں نواز شریف 6 نومبر 1990 ع سے 18 اپریل 1993 ع تک تین سال کیلئے وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے. نواز شريف کے اقتدار کا خاتمہ کیا گیا جس کے بعد دوسرا نگران وزیر اعظم بلخ شیر مزاری بنے جو 18 اپریل 1993 ع سے 26 مئی 1993 تک ماہ کیلئے نگران وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے. 1993 ع میں بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی اور دوران اقتدار اپنے ہی صدر نے تختہ الٹ دیا. پھر نواز شریف دوسری بار وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے 1998 ع میں سابق صدر پرویز مشرف نے نواز شریف کا تخت الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا. مشرف کی بغاوت کی وجہ سے 2002 کے انتخابات کے بعد میر ظفر اللہ خان جمالی کے اس عہدے پر آنے تک یہ عہدہ خالی رہا۔ بلوچستان سے منتخب میر ظفر اللہ جمالی 21 نومبر 2002 ع سے 26 جون 2004 ع تک دو سال کیلئے وزیر اعظم رہے. سابق صدر پرویز مشرف سے اختلاف ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا گیا. 14 واں وزير اعظم پاکستان چوہدری شجاعت حسین دو ماہ کیلئے وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے، 30 جون 2004 ع سے 20 آگست 2002 ع تک اقتدار پر رہے. جس کے بعد پرویز مشرف کی جانب سے شوکت عزیز کیلئے میدان تیار کیا گیا. شوکت عزیز 15 واں وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئے. 20 اگست 2004 ع سے 16 نومبر 2007 تک عہدے پر فائز رہے. نئے الیکشن کیلئے محمد میاں سومرو کو پانچواں نگران وزیر اعظم مقرر کیا گیا جو 16 نومبر 2007 ع سے 25 مارچ 2008 ع تک پانچ ماہ تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے.
دوہزار آٹھ میں پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انتخابات میں پیپلز پارٹی اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور یوں سید یوسف رضا گیلانی کو 16 واں وزير اعظم پاکستان منتخب کیا گیا. جو 25 مارچ 2008 ع سے 26 اپریل 2012 تک چار سال اقتدار میں رہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدالت میں ایک مقدمہ میں سزا دی اور نااہل قرار دے دیا گیا اور یوں وزیر اعظم کے منصب سے فارغ ہوگیا. پیپلز پارٹی نے 17 واں وزير اعظم راجہ پرویز اشرف کو منتخب کرایا جو کہ 22 جون 2012 ع سے 2013 تک وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے. میر ہزار خان کھوسہ 6 نگران وزیر اعظم بنا جو نواز لیگ کے میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم پاکستان بنے جو 5 جون 2013 سے 28 جولائی 2017 ع تک چار سال اقتدار میں رہے. پاناما ليکس میں اقامے میں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل قرار دے دیا گیا. اور نواز لیگ کی جانب سے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم پاکستان بنے جو پہلی اگست 2017 سے 31 مئی 2018 ع تک وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے. 25 جولائی 2018 ع کو عام انتخابات ہوئے پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہوئی عمران خان وزير اعظم پاکستان بنے جو مارچ 2022 تک بھی برقرار ہے. وزیراعظم کے خلاف اس وقت اپوزیشن جماعتیں نواز لیگ. جے یو آئی اور پیپلز پارٹی کی جانب سے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے گئے ہیں. عمران خان نے بھی 27 مارچ کو اسلام آباد پریڈ گرائونڈ میں جلسہ کیا مگر کوئی سرپرائیز نہی دیا. اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ہے. جس پر کاروائی شروع ہو گئی ہے. جبکہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے بھی عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ہے اور پنجاب اسمبلی توڑنے والی عمران خان کی کوشش ناکام بنیادی ہے. دیکھنا یہ ہے کہ لیاقت علی خان سے لیکر نواز شریف تک کسی وزیر اعظم نے اپنی مدت پوری نہی کی. کوئی شہید ہوگیا تو کوئی مستعفی اور کسی کو ہٹایا گیا. عمران خان بھی وزیر اعظم کی پانچ سالہ مدت پوری کرتے ہیں ہٹائے جاتے ہیں یا مستعفی ہوتے ہیں. وزیراعظم عمران خان کے جہاں اپنے اتحادیوں نے جدائی کی ہے وہیں پر اسٹیبلشمنٹ نے بھی دوری اختیار کرلی ہے. وہ اپنے اقتدار کے بچانے کیلئے جہاں بنی گالا میں مرغیوں جلا کر جادو ٹونے سے کام لے رہے ہیں وہیں پر ایڑھی چوٹی کا بھی زور لگا رہے ہیں کہ شاید ہی کوئی معجزہ ہو جائے. شاید اس بار مولانا فضل الرحمان خالی ہاتھ مشکل واپس ہوں. جو بات سامنے نظر آرہی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائے گی. برحال پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا ہے کہ کوئی بھی وزیر اعظم اپنے پانچ سالہ مدت پوری نہی کر سکتا. منتخب ہونے والے وزراء اعظم کو یہاں جیل، پھانسی، گولی سے بھی گزرنا پڑتا ہے. عمران خان کیلئے بہتر تھا کہ وہ عزت سے اقتدار سے الگ ہو جاتے اور نئے انتخابات کی تیاری کرتے. بھلا جانے والے کو کون روک سکتا ہے۔۔(علی انس گھانگھرو)۔