تحریر: سید بدرسعید۔۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کی لاہور پریس کلب آمد نے کئی ابہام دور کر دیے۔ اپوزیشن کے دور میں بھی انہیں دبنگ سیاسی کارکن کے طور پر جانا جاتا تھا۔پنجاب اسمبلی میں ان کی آواز پوری شدت سے گونجتی رہی۔ دوسری جانب انہیں بھی سعد رفیق کی طرح صحافیوں کے قریب سمجھا جاتا ہے اور اس معاملے میں وہ کبھی پروٹوکول کلچر کا شکار نہیں ہوئیں۔ چند ایک اراکین اسمبلی ہی ایسے ہیں جن سے مل کر لگتا ہے کہ وہ سیاست دان نہ ہوتے تو صحافی ہوتے۔ ان کی تقریر بھی رپورٹنگ ہی لگتی ہے کہ بے سروپا بیان بازی کے بجائے حقیقتاً خبر مل جاتی ہے۔ایسی سیاست دان کو وزارت اطلات کا قلمدان ملنے سے امید پیدا ہوئی کہ اب صحافیوں کے مسائل بھی حل ہونے لگیں گے اور حکومت اور میڈیا کے درمیان کمیونیکیشن ماڈل مضبوط رہے گا۔
ان دنوں لاہور پریس کلب کے صحافی انتہائی پریشان ہیں۔ اس کی وجہ نگران حکومت کی جانب سے اپنی مدت کے آخری وقت میں پلاٹ سکیم میں کی جانے والی تبدیلی تھی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ لاہور پریس کلب یا صحافیوں کو ملنے والے پلاٹس کے حوالے سے بھی عوامی سطح پر ابہام پایا جاتا ہے۔ بہت سے غیر صحافی دوستوں کو تاحال یہ لگتا ہے کہ ماضی میں شاید نوازنے کے لیے صحافیوں کو مفت پلاٹ دیے جاتے رہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کو جس فارمولہ کے تحت پلاٹ دیے جاتے ہیں لگ بھگ ویسے ہی فارمولے کے تحت پریس کلب کے ممبران کو ماضی میں پلاٹ دیئے گئے۔ اس سکیم کے تحت زمین حکومت مہیا کرتی تھی جبکہ ڈویلپمنٹ چارجز پلاٹ لینے والا ادا کرتا ہے۔ صحافیوں کے خلاف البتہ پروپیگنڈا ہوتا رہا کہ یہ پلاٹ مفت ملے ہیں۔ سرکاری ملازمین کو تو شاید مسئلہ نہیں ہوا لیکن صحافیوں کو جو جگہ ملی اس میں کئی مسائل تھے۔ 2007 میں صحافی کالونی میں جن صحافیوں کو پلاٹ دیئے گئے ان میں سے بہت سو کو ابھی تک زمین نہیں مل سکی۔لاہور کی صحافی کالونی کے بی بلاک اور ایف بلاک میں جن کی الاٹمنٹ ہوئی ان صحافیوں کو پریس کلب میں “متاثرین” کے نام سے جانا جاتا ہے جن میں سے کئی صحافیوں کو اپنی وفات تک یہ پلاٹ نہیں ملے اور باقی ابھی تک منتظر ہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے لگ بھگ 20 سال قبل باقاعدہ ایک ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت ایک سرکاری فاؤنڈیشن بنی جس نے لاہور پریس کلب کے ممبران کو اسی طرز پر پلاٹ دینے ہیں جس طرز پر سرکار اپنے ملازمین کو دیتی ہے اور صحافی ویسے ہی اس کی رقم ادا کریں گے جیسے سرکاری ملازمین ادا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں بھی صحافی کالونی فیز ٹو کے نام سے 16 سو سے زائد صحافی کئی سال سے منتظر ہیں اور یہ معاملہ التوا کا شکار ہے۔ وہ صحافی جو کئی سال سے فیز ٹو کے منتظر تھے وہ اس سکیم کا حصہ نہیں بن سکے۔ ناموں کی سلیکشن کا طریقہ کار بھی اتنا عجیب تھا کہ کئی سینئر صحافی محض اس وجہ سے سکیم کے لیے تسلیم نہیں کیے گئے کہ وہ اس وقت یا تو بیروزگار تھے یا کسی چھوٹے اخبار میں ملازمت کر رہے ہیں جبکہ ماضی میں وہ پاکستان کے بڑے صحافتی اداروں میں طویل عرصہ ملازمت کر چکے ہیں۔ ان کا صحافتی کیرئر یکسر نظر انداز کر دیا گیا جو تشویش ناک ہے حالانکہ لاہور کا شاید ہی کوئی صحافی ایسا ہو جو انہیں نہ جانتا ہو۔ ان میں کئی صحافی دس دس سال سے لاہور پریس کلب کے باقاعدہ رکن ہیں۔ کئی پریس کلب کے منتخب عہدے دار رہے، کئی صحافتی یونین کے راہنما رہے۔ ان سب کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔ کسی شخص کے طویل کیرئر کو یکسر مسترد کر دینا اس کے لیے کتنا تکلیف دہ امر ہوتا ہے اس کا اندازہ کوئی حساس شخص ہی لگا سکتا ہے۔ میں حکومت کی اس جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی بھی سکیم میں ایسا ”میرٹ“ بنانا ظلم ہے جس کے تحت کچھ افراد کو نواز دیا جائے اور کچھ کو نظر انداز کر دیا جائے۔ لاہور پریس کلب کے ممبران کو منتخب حکومت سے امید ہے کہ میرٹ کو بائی پاس نہیں ہونے دیا جائے گا۔
وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری کے لاہور پریس کلب کے دورے کے موقع پر یہ معاملات ان کے سامنے بھی رکھے گئے۔ وہ اس سلسلے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں کیونکہ ان کا قلمدان حکومت اور میڈیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے اور وہ ذاتی حیثیت میں بھی ہمیشہ اپنی پارٹی اور میڈیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ حکومت کی توجہ اس جانب بھی دلائیں کہ کسی نجی ہاؤسنگ سکیم کی طرز پر پلاٹ بیچنے کی بجائے ماضی کی طرز پر ڈویلپمنٹ چارجز لے کر پلاٹ دینے کے طریقہ کار کو اپنایا جائے کیونکہ تاحال سرکاری اداروں کے ملازمین کو بھی اسی فارمولا کے تحت پلاٹ دیے جا رہے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں تو بے شمار ہیں لیکن ریاست ماں بن کر آسانیاں مہیا کرتی ہے۔ اسی طرح لاہور پریس کلب کے ممبران کے لیے یکساں میرٹ بنایا جائے تاکہ ”من پسند“ والا تاثر ختم ہو۔ تمام ممبران کو جرنلسٹ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے تحت اسمبلی سے منظور شدہ ایکٹ کے مطابق سکیم کا حصہ بنایا جائے۔ دس دس سال کی قسطوں کی بجائے ڈویلپمنٹ چارجز لیے جائیں اور کم مدت میں پلاٹ کے قبضوں کو یقینی بنایا جائے تاکہ چند ہزار تنخواہ پر ایمانداری سے ملازمت کرنے والے صحافیوں کو جلد اپنی چھت مل سکے۔ وزیر اطلاعات ان تمام معاملات کو اتنی ہی باریک بینی سے جانتی ہیں جتنا کہ صحافی کمیونٹی جانتی ہے کیونکہ وہ اپنے سیاسی کیریئر میں کبھی صحافیوں اور ان کے مسائل سے الگ نہیں رہیں۔ وہ اسی طرح لاہور پریس کلب آئیں جیسے کوئی اپنے گھر آتا ہے۔ ان کی یقین دہانی کے بعد لاہور کی صحافی کمیونٹی پرامید ہے کہ پنجاب حکومت میرٹ کو من پسند یا سلیکشن لسٹ پر قربان نہیں ہونے دے گی اور لاہور پریس کلب کے 16 سو سے زائد حقداروں کو ان کا حق اسی سال ملے گا۔(بشکریہ نئی بات)۔۔