تحریر: ناصر جمال۔۔
جرمن فلاسفر جارج ولہلم نے کہا تھا کہ ’’تاریخ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ انسان نے تاریخ سے کچھ نہیں سکیھا۔
ہم بھی کیا معاشرہ ہیں۔ ججز کو ننگی گالیاں دی جارہی ہیں۔ اس کی سوشل میڈیا پر کھلی آزادی ہے مگر صحافی خالد جمیل کو مہذب ٹویٹس کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ وہی گھسا پٹا الزام ہے کہ عوام میں ادارورں کے خلاف نفرت پھیلا رہا تھا۔آخر ایسی کونسی قیامت آن پڑی تھی کہ ایف۔ آئی۔ اے درجنوں اہلکاروں کے ساتھ، ایک قلم کار کے گھر گُھس گئی۔ فون کرکے بلاتے، وہ خود حاضر ہوجاتا۔ اتنا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔یقینی طور پر تذلیل کا مقصد، بہت ہی واضح ہے۔ دوسروں کو پیغام ہے۔ کہ ’’بندے دے پُتر بن جائو۔
جہاں اتنی بھی برداشت نہ ہو۔ آپ اُن سے توقعات لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ لوگ آپ کو مہذب اور ترقی یافتہ ریاست اور قوم بنائیں گے۔ قومیں قانون کی حکمرانی سے بنتی ہیں۔ عدل، ادب، فنون لطیفہ قوموں کو مہذب بناتے ہیں۔ برداشت قوموں اور معاشروں میں نکھار لاتی ہے۔ میرٹ، قوموں کو پروان چڑھاتاہے۔ علم دوستی اور تحقیق نئے جہانوں کے راستے کھولتے ہیں۔
تشدد تو نفرت کو جنم دیتا ہے۔ یہ تو بزدل اور کم حوصلہ لوگوں کا ہتھیار ہے۔ اگر کوئی صحافی سخت جملے لکھتا ہے۔مشرقی پاکستان سمیت لاشوں کے استعارے استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا وہ بغاوت کر رہا ہے۔ دراصل وہ نہیں چاہتا۔ پھر سے ویسے حالات ہوں۔ اخر اپ کسی کو شک کا فائدہ کیوں نہیں دیتے۔ مثبت کیوں نہیں سوچتے۔ وہ کو سب کچھ پتا ہے۔
نوابزادہ نصر اللہ خان یاد آئے۔کہنے لگے امریکی اور روسی بحث ہوگئی۔ کسی کے ہاں اظہار ائے کی زیادہ آزادی ہے۔ امریکی نے کہا کہ وہ وائٹ ہائوس کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر، اپنے صدر کو گالی دے سکتے ہیں۔ روسی نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ کونسی بڑی بات ہے۔ ہم کریملن کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر تمہارے صدر کو گالی دے سکتے ہیں۔وہ کہتے تھے۔ یہ عجیب ملک ہے۔ یہاں پر اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے مخالف کو آپ جتنی چاہیں گالیاں دے سکتے ہیں۔ کوئی آپ کو نہیں پوچھے گا۔
آپ مشاہد حسین ہوں۔ کڑاکے نکالنے سے تائب ہوجائیں۔ آپ لاڈلے ہیں۔ آ پ حسین حقانی ہوں۔ اگر آپ کے پیچھے طاقتور ہیں تو آپ امریکہ باعزت واپس جاسکتے ہیں۔ اگر آپ کسی امریکی کنٹریکٹر کے ملازم ’’ریمنڈ ڈیوس‘‘ ہیں تو نمبر ون ، آپ کو بچانے کے لئے، خود کچہری کے باہر ہوگا۔
یقین کیجئے، مجھے تو جسٹس ٹروڈو کی دماغی حالت پر شک ہونے لگا ہے۔ وہ ایک سکھ کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اصول صرف یہ ہے کہ وہ کینڈین شہری ہے۔ وہ ڈٹ گیا۔ پوری ریاست اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ ابھی نندن اور کلبھشن یادیو کیس میں، دنیا کی تیسری بڑی معیشت کے سامنے ہماری ایٹمی قوت والی ریاست کی کانپیں ٹانگتی ہیں۔وہ عجیب و غریب آدمی ہے۔ معاشی مفادات ہی نہیں دیکھ رہا۔
اسے چاہیئے۔ وہ پاکستان آکر، ایک ریفریشر کورس کرے۔ ہم نے ستر ہزار افراد مروا لئے۔ کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ اُسے سیاسی گُر ہمارے علاوہ کوئی نہیں سکھا سکتا۔ وہ کیوں پورے ملک اور ملکی مفادات کو دائو پر لگا رہا ہے۔ بہر حال یقین مانیئے، بہت ہی بے وقوف وزیراعظم ہے۔ اور کچھ نہیں تو ہمارے وزیر اعظم سے سیلفی لینا ہی سیکھ لے۔ ایک قتل ہوگیا تو کیا ہوا۔ ہمارے ہاں تو بھی سکھ رہنما لاہور میں قتل ہوا۔ ہم نے کیسے دبا دیا۔
ہمیں مودی، صُبح کوئی آفر کرے۔ ہم سب کچھ بھول بھال کر ملکی مفادات کے لٸے، اس سے مذاکرات کریں گے۔ کیا ہوا اگر مودی نے کبھی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لئے، عسکری جدوجہد کی تھی۔ اب ماضی کے مردے گڑے اکھاڑنے سے کیا ملتا ہے۔
ریاستوں کو ’’پریکٹیکل‘‘ ہونا چاہئے۔ اب ریاست سے بڑی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ شہری تو ریاست پر قربان ہونے کو ہی ہوتے ہیں۔
بات دوسری جانب جانکلی ہے۔
آپ یقین جانیئے۔ ہماری اسٹیبلیشمنٹ نے نوے روزہ نگران حکومت کے لئے، کمال کے ہیرے تلاش کیے ہیں۔ ہیرے اتنے کمال کے ہیں کہ ایک صوبے میں تو تمام ہی فارغ کر دیئے گئے تھے۔
ایک صوبے میں وزارت خزانہ ہی ایک ہیرے کو ہٹا دیا گیا۔ اب تو ایسی، ایسی کہانیاں اور سینہ گزٹ گردش کررہے ہیں کہ اللہ کی پناہ ہے۔ شنید ہے کہ قائد اعظم کو اتنی عزت تو کسی بھی دور میں نہیں ملی۔ جتنی نو اگست کے بعد، چھ ہفتوں میں ملی ہے۔ اس سے ’’فرشتوں‘‘ کی نیک نامی میں کمال اضافہ ہورہا ہے۔
کسی کوکوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔
مجھے تو سب سے زیادہ حیرت نگران وزیر اطلاعات کے انتخاب پر ہوئی ہے۔ جس شخص نے کبھی، اپنے یوٹیوب چینل پر کبھی ڈھنگ کا سوال بھی نہ کیا ہو۔ جس کی واحد قابلیت، زرداری ہائوس کی درگاہ پر چڑھاوے چڑھانا ہو۔اسلام آباد میں کسی کو نہیں پتا۔ وہ ڈی۔ جی، ریڈیو کیسے لگے تھے۔بڑی آزادی اظہار رائے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ آج، کل پریس کانفرنس میں اُن کے رویہ، کاکول کے ’’صاحب‘‘ والا ہے۔ وہ صحافیوں کو انڈر ٹریننگ کیڈٹس کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔ ایک لسٹ لیکر بیٹھ جاتے ہیں۔ کون سوال کرے گا۔ کون نہیں، اس کا فیصلہ وہ کریں گے۔ کئی صحافیوں سے عزت افزائی کروا چکے ہیں۔ ہر صحافی سے میچ ڈالنا، فرض عین سمجھتے ہیں۔ اگر آپ نے پریس کانفرنس کے نام پر یہی کچھ کرنا ہے تو پھر سیدھا سیدھا پریس ریلیز جاری کر دیا کریں۔ان تکلفات میں کیوں پڑتے ہیں۔
سابق پی۔ آئی۔ او سہیل علی خان سے ان کا جو جھگڑا بتایا جاتا ہے۔ اگر وہی سچ ہے تو پھر ’’دوستوں‘‘ سے معذرت ہی ہے۔اپنے سر میں یہ خاک ڈالنے کی کیا ضرورت تھی۔ وزارت اطلاعات میں، متوازن شخصیت چاہیئے ہوتی ہے۔ ایسا بندہ جو میڈیا اور حکومت کو لیکر چلے، نہ کہ حکومت اورمیڈیا کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کرے۔موصوف ’’بونیفائیڈی‘‘ صحافیوں کو جانتے نہیں ہیں۔ سرکاری سوٹ، بوٹ اور انڈر ویئر تک ہاتھ میں اتار کر پکڑا دیتے ہیں۔
وزیراعظم کاکڑ کے ساتھ، جتنی زیادتی موصوف نے کی ہے۔ شاید ہی کسی نے کی ہو۔ مہر بخاری کے انٹرویو کے بعد، وزیر اطلاعات کو فوری طور پر ’’فائر‘‘ کردیا جانا چاہئے تھا۔عمران ریاض پر وزیراعظم کا جواب ’’چارج شیٹ‘‘ ہے۔ وہ تباہ کن جواب ان کے ہوتے ہوئے۔ کیسے آن ایئر ہوگیا۔ چلیں، وزیراعظم کو تجربہ نہیں ہے۔ وہ بلنڈر سے باز نہیں آتے۔ سیلفی اور مالیاتی اداروں کی خواتین سے، ان ہاتھ ملانے کے پروٹوکولز کا نہیں پتا۔ مگر جو لوگ ساتھ دیئے گئے ہیں۔ کیا وہ مکمل نان پروفیشنل ہیں۔ سیکرٹری انفارمیشن اور پریس سیکرٹری کہاں تھے۔ کیسے یہ سب کچھ ہوا۔ میرا مسئلہ دوسرا ہے۔
ہم صحافی تو موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ریاستی مشینری کا کام ہوتا ہے۔ وہ بلنڈر نہ ہونے دے اور اگر ’’بھنڈ‘‘ لگ جائے تو اُسے سنبھالے۔آپ ایک ناتجربہ کار وزیراعظم کو ایسے، کیسے، میڈیا کے سامنے بیٹھ کر، سرخرو ہوجاتے ہیں۔سب کو پتا ہے کہ نگران وزیراعظم، بہت ہی کمزور ہے۔ پھر اُسے تجربہ کار ٹیم کیوں نہیں دی گئی۔یہاں یہی حال ہے۔ فواد حسن فواد گذشتہ روز کی کانفرنس میں پھٹ پڑے۔ کہا کہ مجھے، آپ لوگ بلیک میل نہیں کرسکتے۔ وہ جسے 35 سال کی نوکری کا زعم تھا۔پہلے ہی پریس کانفرنس میں چاروں شانے چت ہو گیا ایک مزدور ہے۔ جو مسلسل پانچ سال وزیراعظم سیکرٹریٹ کا ’’اَن داتا‘‘ اور وزیراعظم کی شبیہہ تھا۔ صرف ایک سوال پر ایکسپوژ ہوگیا۔
انتہائی معذرت کے ساتھ نگران وزیراعظم تو کل کا ’’بچہ‘‘ ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا۔ وہ ازخود، روز یہی کچھ ثابت کرتے ہیں۔توقیر شاہ ، شہباز شریف کو ایکسپوژڈ ہونے سے نہیں بچا سکے۔ اُس نے مسٹر کاکڑ کو کیا چلانا تھا۔نائیک فلم کے بعد، مہر بخاری کا سب سے کلاسیکل انٹرویو تھا۔ میرا اُس خاتون کو دونوں ہاتھوں سے سیلوٹ ہے۔ ان کے ماضی کے تمام صحافتی گناہ معاف ہیں۔ایک پرسکون، ہنستی ہوئی اینکر نے، کمپنی کے کوہ نور ہیرے کو تخلیق کاروں سمیت تباہ و برباد کردیا۔
دوستوں کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ وزیراعظم بعد میں بدلیں۔ سب سے پہلے، وزارت اطلاعات، میں وزیر، سیکرٹری پی۔ آئی۔ او سمیت، سب سے معذرت کرلیں۔نگران کابینہ کے نوے فیصد ہیروں سے بھی دست بدست ذمہ داریاں واپس لے لی۔ ماسوائے وزیر داخلہ سے، بلوچستان سے، آخر کسی کو رکھنا ہی ہے۔ ہاں، لیگی ٹیم کو باقاعدہ خود گھر چھوڑ کر آئیں۔
وزیر اطلاعات کے لئے، رائو تحسین علی خان سے بہتر آدمی نہیں ہے۔ جو نتائج وہ دے سکتا ہے۔ کوئی اور نہیں دے سکتا۔ تمام تر اختلافات کے باوجود، میرا ووٹ اُن کے حق میں ہے۔ وہ صحافیوں اینکروں اور مالکان کے درمیان، بہت ہی ’’آسودہ پُل‘‘ کا کردار ادا کرے گا۔ اُسے وزارت اطلاعات میں ٹیم بنانے دیں۔ وہ بہت سے وہ کام کرسکتا ہے۔ جس کا دوست سوچ بھی نہیں سکتے۔حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا، بہترین تعلقات انجوائے کریں گے۔ اسلام آباد کے معتبر ترین اور سینئر ترین صحافی حافظ طاہر خلیل کا ’’تجربہ‘‘بتاتا ہے کہ انتخابات نہیں ہونگے۔
اگر ایسا ہے تو پھر ’’دوستوں‘‘ کو واقعی وزیراعظم لانا ہوگا۔ کوئی 38 سالہ نوکری والا، لاہور سے ڈھونڈلیں۔ ملک چل سکتا ہے۔ بس، ٹیم، انھیں بنانے دیں۔ آئوٹ آف باکس، حل ڈھونڈنے ہونگے۔ پی۔ آئی۔ اے اور اسٹیل مل سیمت بیمار اداروں کے وہ حل بھی ہیں۔ جہاں، سب کی جیت ہو۔ اسٹیل مل چلی، جنرل ظہیر کو 14 ارب اقساط میں کیوں دیئے۔ کے۔ الیکٹرک تو اسٹیل مل سے بہت بڑی نادھندہ تھی۔ پھر اس کی سوئی سدرن نے گیس نہیں کاٹی۔ اسٹیل مل کی گیس کیوں کاٹ دی۔ اور بھی بے تحاشا سچ ہیں۔
جس ایئر لائن کے پاس 62 لاکھ مسافروں کا لوڈ ہو۔ 92 روٹ ہوں۔ بے شمار اثاثے ہوں۔ حج آپریشن ہو۔ عمرہ ہو۔ عراق، ایران کے زائرین ہو۔ وہ کیسے منافع کی بجائے خسارے میں ہو۔ جس کا اوسط لوڈ، 75 سے 80 فیصد ہو۔ فریٹ بے حساب ہو۔حضور کہیں گڑ بڑ نہیں بلکہ بدنیتی ہی بدنیتی ہے۔مہاجنوں کے ایجنٹ، وزیر اور سیکرٹری بنا دیئے گئے ہیں۔ اُن سے بھی تو مشورے کریں۔ بلکہ انھیں لیکر آئیں جو کہتے ہیں۔ کراچی پورٹ اور 26 میل لمبا ساحل میرا ہو۔ پانچ سال میں آپ کا قرضہ ادا ہوجائے گا۔
آج پاکستان جس دوراہے پر ہے۔ وہاں پرغیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلوں کا متقاضی ہے۔ اس کے لئے، ملک میں موجود غیر معمولی لوگوں کو آگے لانا ہوگا۔ پیپرا جیسے قوانین کو ختم کرکے، نئی شروعات کرنا ہونگی۔ بیورو کریسی اور کارپوریشنز میں آپریشن کلین۔ اپ کرنا ہوگا۔فواد حسن فواد، احد چیموں، شاہد تارڈوں، مرتضیٰ سولنگیوں، محسن نقوی، باقروں، توقیر شاہوں اور کاکڑ جی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اپنے ہیروں کی بجائے، قوم کے ہیروں کو سامنے لائیں۔ بات بن سکتی ہے۔(ناصر جمال)۔۔