تحریر: جاوید چودھری۔۔
رسول اللہﷺ فخر کائنات ہیں‘ ان جیسی ریاست قائم کرنا تو دور ہمیں تو یہ سوچنے سے پہلے بھی اپنی سوچ کو ہزاروں مرتبہ عرق گلاب سے غسل دینا چاہیے‘ پھر بھی شاید ہی ہماری سوچ کا وضو مکمل ہو سکے گا لہٰذا میری علماء کرام سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر ریاست مدینہ کی تشریح کر دیں اور وزیراعظم صاحب کو بھی بتا دیں تاکہ یہ جب ریاست مدینہ کی بنیاد رکھیں تو یہ اپنی ذات میں کلیئر ہوں‘ کیوں؟ کیوں کہ مجھے خطرہ ہے یہ ریاست بنانے کے بعد کہیں یہ نہ سوچ رہے ہوں ہم نے اس ریاست پر تختی کس کی لگانی ہے؟
ہم اس بحث کو چند لمحوں کے لیے سائیڈ پر رکھتے ہیں اور فرض کرلیتے ہیں ہمارے وزیراعظم ایک کرائم فری اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیںتو پھر میرا انھیں مشورہ ہے آپ کو پیچھے ماضی میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں‘ دنیا میں اس وقت 12 کرائم فری ملک ہیں‘ آئس لینڈ پہلے نمبر پر آتا ہے‘ سنگا پور دوسرے ‘ آسٹریا تیسرے اور اس کے بعد ڈنمارک‘ پرتگال‘ کینیڈا‘ سوئٹزر لینڈ‘ نیوزی لینڈ‘ ناروے‘ اسپین‘ ہانگ کانگ اور نیدرلینڈ آتے ہیں‘ آئس لینڈ میں ہفتہ اور اتوار دو دن تھانے تک بند ہوتے ہیں۔پورے ملک میں صرف دو سو پولیس اہلکار ہیں اور بس جب کہ دنیا کے ٹاپ 20 کرائم فری ملکوں میں اومان‘ یواے ای‘ قطر اور بحرین چار اسلامی ملک بھی شامل ہیں‘ آپ ان کو کاپی کر لیں‘ آپ اگر ٹیکس فری اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں تو دنیا میں اس وقت 20 ٹیکس فری ملک ہیں‘ ان میں بھی دو اسلامی ملک شامل ہیں‘ آپ اگر ایک غیر مقروض ملک بنانا چاہتے ہیں تو دنیا میں اس وقت 13غیر مقروض ملک ہیں‘ ان میں ایک اسلامی ملک اردن بھی شامل ہے۔
آپ اگر قانون کی ایسی پابند ریاست بنانا چاہتے ہیںجس میں صدر سے لے کر چپڑاسی تک تمام لوگ قانون کی پابندی کرتے ہوں تو دنیا میں اس وقت دس قانون کے پابند ملک بھی ہیں‘ ڈنمارک‘ ناروے‘ فن لینڈ‘ سویڈن‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ نیوزی لینڈ‘ آسٹریا‘ کینیڈا اور آسٹریلیا‘ آپ اگر انصاف پر مبنی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر دنیا میں 9 ایسے ملک ہیں جن کے جسٹس سسٹم کی قسم کھائی جا سکتی ہے اورآپ اگر معاشی طور پر مضبوط اور خودمختار ملک بنانا چاہتے ہیں تو دنیا میں 15 معاشی طاقتیں بھی موجود ہیں اور آپ اگر ایسی ریاست بنانا چاہتے ہیں جن میں عورتوں اور مردوں کے حقوق برابر ہوں تو دنیا میں اس وقت ایسے دس ملک موجود ہیں۔
ان ملکوں میں عورتوں اور مردوں کے ساتھ ساتھ تمام طبقے بھی برابر ہیں‘ ان میں کوئی غریب اور امیر‘ چھوٹا یا بڑا اور کالا اور گورا نہیں‘ تمام انسان برابر ہیں‘ وزیراعظم صاحب ان میں سے کسی ملک کو اٹھائیں اور کاپی کر لیں اور اگر اس کے باوجود ان کا اصرار ہے یہ ریاست مدینہ ہی بنائیں گے تو پھر سوال یہ ہے کیا آپ خود اور آپ کے ساتھی ریاست مدینہ کے معیار پر پورے اترتے ہیں؟
کیا آپ کی کابینہ کے دس بڑے وزراء ریاست مدینہ کی شہریت کے قابل ہیں‘ کیا آپ ان کی صداقت اور امانت کی قسم کھا سکتے ہیں‘ کیا ان کے دامن اتنے پوتر ہیں کہ انھیں نچوڑ کر فرشتے وضو کر سکیں؟اگر اس کا جواب نہیں ہے اور اگر آپ خود بھی ریاست مدینہ کے اسٹینڈرڈ پر پورے نہیں اترتے تو کیا پھر آپ سے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھوائی جا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر آپ کس کو دھوکا دے رہے ہیں۔
کس کے جذبات سے کھیل رہے ہیں اور کیا اسلام میں سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کو رسول اللہﷺ کے نام پر عام لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ لہٰذا میری آپ سے درخواست ہے ہم سب کی عزت‘ جان اور مال ہمارے آقا نبی اکرمؐ پر قربان‘ آپ پلیز ان کا نام لے کر لوگوں کودھوکا نہ دیں‘ اللہ کے عذاب سے ڈریں‘ ہم پہلے ہی اپنی اوقات سے زیادہ عذاب بھگت رہے ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)