تحریر: انصار عباسی۔۔
گزشتہ جمعہ کو وزیراعظم عمران خان کی پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے ڈائیریکٹر نیوز سے ملاقات ہوئی، جس میں اُنہوں نے دوسرے سیاسی موضوعات کے ساتھ ساتھ فحاشی و عریانی کے مسئلہ پر بھی کھل کر بات کی اور کہا کہ انڈین فلم اور ڈرامہ کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی و عریانی کی وجہ سے بھارت کا اخلاقی طور پر دیوالیہ پن، آخری حدوں تک پہنچ چکا ہے اور اسی وجہ سے دہلی کو ریپ کیپیٹل کے طور پر جانا جانے لگا ہے۔
خان صاحب نے ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹرنیوز کو یہ بھی کہا کہ پاکستان میں جنسی جرائم میں فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ کی وجہ سے بہت اضافہ ہو چکا ہے اور اس کی بنیادی وجہ بھارت اور مغرب کی وہ فحش فلمیں و ڈرامے ہیں، جو یہاں دکھائے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا ایپس اور انٹرنیٹ کی وجہ سے موبائل کے ذریعے بھی جو فحش مواد ہر فرد تک پہنچ رہا ہے اُس کی وجہ سے بھی پاکستان میں جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ ایک وقت تھا کہ پاکستانی ڈرامہ اور فلم فحاشی و عریانی سے پاک ہوتے تھے اور خاندان کے لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے تھے لیکن اب ہمارے ڈراموں اور فلموں میں بھی فحاشی و عریانی دکھائی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں وزیراعظم نے اور بھی باتیں کیں لیکن مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ فحاشی و عریانی کے متعلق وزیراعظم کی باتوں کو میڈیا نے یا تو مکمل سنسر کر دیا یا ایک دو جملے خبروں میں اِس انداز میں ڈالے جیسے کوشش ہو کہ کوئی پڑھ یا دیکھ نہ لے۔ مجھے خوشی ہے کہ ’’جنگ‘‘ اور ’’دی نیوز‘‘ نے وزیراعظم کی اِس خبر کو تفصیل سے شائع کیا لیکن میرا گلہ میڈیا سے یہ ہے کہ وزیراعظم کی اتنی اہم بات کو سنسر یا دبایا کیوں گیا۔ کیا یہ بددیانتی نہیں؟ ٹی وی چینلز نے اس معاملہ پر اور وزیراعظم کی اس جائز فکر پر کتنے ٹاک شوز کئے؟ بھارت کی نقل میں پاکستانی میڈیا معاشرہ میں فحاشی و عریانی پھیلانے کا ذمہ دار ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ اس غلط کام کو جاری رکھا جائے۔
میڈیا اگر فحاشی و عریانی پر قابو پانے کے بجائے اِسے پھیلائے گا، اُس کا دفاع کرے گا اور وزیراعظم تک کی بات کو سنسر یا دبانے کی کوشش کرے گا تو یہ نہ صرف صحافت کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اسلامی تعلیمات اور پاکستان کے آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
میری پاکستان کے عوام سے گزارش ہے، میں سیاسی جماعتوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ اس معاملہ پر وزیراعظم کا ساتھ دیں تاکہ میڈیا، سوشل میڈیا ایپس اور انٹرنیٹ کو فحش مواد سے پاک کیا جائے کیوںکہ یہ سارے عوام، پورے معاشرہ اور ہر پاکستانی اور ہماری آئندہ نسلوں کے مستقبل کو تباہی سے بچانے کو معاملہ ہے۔
مجھے ایسے لوگوں پر افسوس ہوتا ہے جو اپنے سیاسی اختلافات اور ذاتی پسند و ناپسند کی وجہ سے عمران خان کا فحاشی و عریانی کی خلاف فکر اور اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہنے کے بجائے خان صاحب کو اُن کا ماضی یاد دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی ماضی کی غلطیوں اور گناہوں کو چھوڑ کر اچھا اور نیک کام کرے، اُسے ماضی کی طرف مت دھکیلیں بلکہ وہ تو قابلِ تعریف ہے، اُس کی حوصلہ افزائی کریں، اُس کا ساتھ دیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔