سینئر صحافی اور معروف اینکر پرسن رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ قریب آتے ہی سیاست میں ہنگامہ خیزی تیز ہونا شروع ہو گئی ہے۔ جہاں سائفر کیس میں عمران خان کو غیر متوقع طور پر ضمانت مل گئی وہیں تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان بلے سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ ابھی یہ انتخابی نشان والا معاملہ عدالت جائے گا ‘ ممکن ہے عدالت الیکشن کمیشن کا فیصلہ بدل دے۔ آنے والے دنوں میں لڑائی مزید بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ نامزدگی کے پیپرز جمع کرانے کی تاریخ ختم ہونے کے بعد سکروٹنی کا عمل شروع ہوگا اور جو امیدوار بچ گئے ہیں ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ آزاد الیکشن لڑیں۔ اگر وہ جیت گئے تو وہ چاہے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ہوں‘ انہیں کنٹرول کرنا آسان رہے گا۔دنیا نیوز میں لکھے اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔ یہاں تو ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ یہ لوگ با ریاں لے کر بھی رولز آف گیم طے کرنے کو تیار نہیں۔2008 ء میں زرداری نے پانچ سال باری لی تو2013 ء میں نواز شریف کی تیسری باری لگی جبکہ2018 ء میں عمران خان کو پہلی دفعہ باری دی گئی۔ اب نواز شریف چوتھی باری چاہتے ہیں جبکہ زرداری اس وقت بلاول کا کھاتہ کھلوانے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں اور انہیں سارا کھیل ہاتھ سے نکلتا لگ رہا ہے۔ جبکہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اُن کی مقبولیت کا جو عالم ہے اگر وہ اس وقت اپنے ووٹ کوکیش نہ کرا سکے تو پھر یہ کام کبھی نہیں ہوگا۔ اب یہ تینوں اس وقت desperate ہیں۔ وہ کوئی بھی ڈیل کرنے کو تیار ہیں۔ جمہوریت‘ آئین‘ قانون یا ملک کی سلامتی اور سیاسی استحکام ان کی ترجیح نہیں ہے۔ ترجیح اس وقت وزیراعظم بننا ہے‘ چاہے اس کے لیے ڈاکٹر فاؤسسٹس کی طرح اپنی روح کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ وزیراعظم کی سیٹ ایک ہے اور امیدوار تین۔اب یہ تینوں اپنی اپنی عرضیاں لے کر طاقتوروں کے دفتر کے باہر بیٹھے ہیں۔
وزیراعظم بننا ترجیح بن چکا ہے، رؤف کلاسرا۔۔
Facebook Comments