تحریر: امجد عثمانی۔۔
وفاقی کابینہ میں توسیع پر پاکستان کے مشرقی ضلع کے “یار لوگوں” کو “نہال” پایا کہ نارووال کے تمام ارکان اسمبلی وزیر اور مشیر ہو گئے اور وزیروں مشیروں کی اس “فوج ظفر موج “کا کریڈٹ جناب احسن اقبال کو جاتا ہے۔۔۔نئے وزیروں مشیروں میں شکرگڑھ سے مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی محترمہ وجہیہ قمر بھی شامل ہیں جنہیں وزارت تعلیم و تربیت کی وزیر مملکت کا قلم دان سونپا گیا ہے۔۔وہ نارووال کی پہلی خاتون وزیر بھی بن گئی ہیں۔۔۔۔شکرگڑھ سے ہی رکن قومی اسمبلی جناب انوارالحق بھی امور کشمیر و گلگت بلتستان امور کے ہارلیمانی سیکرٹری ہیں۔۔۔۔اسی طرح نارووال سے رکن صوبائی اسمبلی جناب بلال اکبر خان پنجاب کے وزیر ٹرانسپورٹ ہیں تو جناب رمیش سنگھ اروڑا وزیر اقلیتی امور ہیں۔۔۔نارووال سے ہی ایم پی اے وسیم بٹ چیئرمین بیت المال جبکہ ظفرووال سے جناب احسن اقبال کے فرزند جناب رکن صوبائی اسمبلی جناب احمد اقبال اور شکرگڑھ سے ایم پی اے جناب رانا منان خان بھی پنجاب حکومت کا حصہ ہیں۔۔۔”یار لوگوں” کی جناب احسن اقبال سے “اندھی عقیدت” اپنی جگہ لیکن لگتا نہیں کہ نارووال کے تمام وزیر مشیر “سفارشی” ہیں۔۔۔۔میرا نہیں خیال کہ بلال اکبر اور رمیش سنگھ اروڑا احسن اقبال کی “پرچی” پر آئے۔۔۔۔اسی طرح احمد اقبال بھی پڑھے لکھے آدمی ہیں اور وسیم بٹ بھی مستند ایم پی اے ہیں۔۔۔۔۔”یارلوگوں” کی معلومات کے لیے یہ بھی عرض ہے کہ نارووال میں پہلے بھی ایک بار وزیروں مشیروں کی “فوج ظفر موج “کا ظہور ہوچکا مگر نارووال کو ہوٹر والی گاڑیوں اور جھنڈوں کے سوا کچھ نہ ملا۔۔۔۔کیوں ؟کاش” یار لوگ”اپنے رہنمائوں کے سامنے یہ سوال اٹھایا کریں کیونکہ صحافی سوال سے ہی بنتا ہے ورنہ “صالح ظافر”۔۔۔۔۔!!!یہ دو ہزار دو میں جنرل پرویز مشرف کے زیر انتظام “بندوبستی زمانے” کی بات ہے۔۔تب شکرگڑھ سے رکن قومی اسمبلی بابائے سیاست جناب انور عزیز کے “فارن کوالیفائیڈ صاحبزادے”جناب دانیال عزیز چیئرمین قومی تعمیر نو بیورو تھے۔۔۔یہ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا بلکہ اس سے بھی طاقتور۔۔۔وہ دو ہزار اٹھارہ میں بھی کچھ عرصے کے لیے وزیر ٹھہرے۔۔۔۔اسی طرح رکن قومی اسمبلی جناب نصیر خان وفاقی وزیر صحت اور رکن صوبائی اسمبلی جناب ڈاکٹر طاہر علی جاوید وزیر صحت پنجاب تھے۔۔۔وہ صوبائی وزیر سپیشل ایجوکیشن بھی رہے۔۔۔جناب پیر سعید الحسن شاہ صوبائی وزیر اوقاف تھے۔۔۔وہ عثمان بزدار حکومت کے وزیر اوقاف بھی تھے اور آج کل اسلامی نظریاتی کونسل کی ممبرشپ پر “قناعت”فرما رہے ہیں۔۔۔۔۔دو ہزار دو کے سیٹ اپ میں رکن قومی اسمبلی محترمہ رفعت جاوید کاہلوں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری جبکہ رکن صوبائی اسمبلی جناب کرنل عباس اور جناب کرنل شفاعت صوبائی مشیر تھے۔۔۔۔یہی نہیں دو دہائیوں کے دوران نارووال شکرگڑھ سے جناب صدیق بھٹلی۔۔۔۔میاں رشید کی اہلیہ محترمہ اور جناب اکمل سرگالہ ایم ایل اے اور کشمیر کے وزیر مشیر بھی بنے۔۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر مشیروں کی پہلی” فوج ظفر موج” نے نارووال اور شکرگڑھ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں کہ”نئی بھرتی” پر شادیانے بجائے جائیں؟؟کڑوا سچ یہ ہے کہ شکرگڑھ کی سیاست سے سابق وزیر مملکت ہائوسنگ جناب طارق انیس کا دور مائنس کردیا جائے تو شکرگڑھ کے پاس” زیر آب باب شکرگڑھ “کے سوا کچھ نہیں بچتا۔۔۔جناب طارق انیس دو ہزار آٹھ میں شکرگڑھ سے آزاد رکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور مشرقی سرحد کے آخری شہر کے لیے تاریخ ساز منصوبہ لانے میں کامیاب ہوگئے اور وہ تھا سوئی گیس کا منصوبہ۔۔۔۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گیس پراجیکٹ شکرگڑھ کی پچاس ساٹھ سالہ سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔۔۔۔۔۔یہی نہیں شکرگڑھ میں نادرا آفس اور بیئں پل بھی ان کی کاوش ہے۔۔۔۔۔شکرگڑھ میں یہی تین منصوبے ہیں یا پھر چار مرتبہ رکن صوبائی رہے ” ہمارے حضرت صاحب” نے ڈگری کالج کو پوسٹ گریجویٹ کالج کا درجہ دلوایا اور سڑکوں کا جال بچھایا۔۔۔جناب طارق انیس کی پرفارمنس دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وزیر واقعی وزیر ہو تو ایک ہی کافی ہے چہ جائیکہ وزیروں مشیروں کی “فوج ظفر موج” ہو اور وہ بھی” پیدل”۔۔۔۔!!وزیر واقعی وزیر ہو تو ایک ہی کافی ہوتا ہے اور اس کی جیتی جاگتی تصویر وفاقی وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال خود ہیں۔۔۔۔کوئی نارووال جائے اور اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ احسن اقبال نے دس سال میں نارووال کا نقشہ کیسے بدل دیا؟انہوں نے بطور سیاستدان دھرتی سے وفا کا حق ادا کردیا۔۔۔لوگوں کو سبز باغ نہیں دکھائے۔۔۔سہانے خواب دیکھے اور خوش کن تعبیریں دیں۔۔۔۔ایک کے بعد ایک شاہکار منصوبہ منصہ شہود پر آیا کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔۔۔۔ابھی کچھ دن ہوئے کہ نارووال کے افق پر ایک اور “قوس قزح” نے رنگ بکھیر دیے۔۔۔۔نارووال میڈیکل کالج کی وائٹ کوٹ تقریب سجی جہاں 100طالب علموں کی خوشی دیدنی تھی اور والدین کے چہرے بھی خوشی سے تمتما رہے تھے۔۔۔ نارووال میڈیکل کالج”فنکار رہنما”کے نجی میڈیکل کالج کے برعکس سرکاری میڈیکل کالج ٹھہرا جہاں میڈیکل سٹوڈنٹس کو ڈگری کروڑ سوا کروڑ نہیں صرف چند لاکھ میں ملے گی۔۔ ۔۔۔شنید ہے کہ “فنکار رہنما” کی نجی یونیورسٹی بھی پائپ لائن میں ہے۔۔۔۔۔ نارووال میڈیکل کالج سے پہلے بھی احسن اقبال کی تعبیروں کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔۔۔۔ایک سو چالیس ایکڑ پر پھیلی یونیورسٹی آف نارووال کے نام سے درس گاہ احسن اقبال کے بڑے خواب کی بڑی تعبیر ہے۔۔۔دو سو پچیس ایکڑ پر محیط یو ای ٹی لاہور کا نارووال کمپس جبکہ ایک سو چالیس ایکٹر پر یونیورسٹی آف ویٹرنری سائنسز بھی ان کے “حسن تخیل”کا شاہ کار ہے۔۔۔۔اسلامیہ کالج کی بحالی۔۔۔ڈی ایچ کیو ٹیچنگ ہسپتال نارووال۔۔کینسر ڈائیگناسٹک سنٹر اور ڈاکٹر اشفاق ایکسی سنٹر بھی ان کے منصوبے ہیں۔۔۔۔یہی نہیں نارووال میڈیکل کالج کے تحت شکرگڑھ اور ظفروال کے ٹی ایچ کیو ہسپتال بھی ٹیچنگ ہسپتال کا درجہ پاچکے۔۔۔۔نارووال کے واحد ادیب اخبار نویس جناب ملک سعید الحق کے مطابق احسن اقبال ایک اور خواب بھی دیکھ رہے ہیں اور وہ ہے ایگری کلچر یونیورسٹی کا کیمپس۔۔یہ خواب بھی جلد شرمندہ تعبیر ہونے جا رہا ہے۔۔۔۔یہی نہیں نارووال میں آئی ٹی کے لیے اندلس ٹاور اور لاہور نارووال سپر ہائی وے کی بھی گونج ہے۔۔۔احسن اقبال نے نارووال کو چودہ کھیلوں کے لیے پینتالیس ایکڑ پر نارووال سپورٹس کمپلیکس بھی دیا۔۔ ۔۔اب اسی سپورٹس کمپلیکس کی بنیاد پر نارووال کو ایشین گیمز کی میزبانی کا اعزاز بھی مل گیا ہے ۔۔۔۔۔یہ وہی سپورٹس کمپلیکس جو “عمرانی دور “میں سکینڈل ٹھہرا اور اس کی پاداش میں احسن اقبال کو پابند سلاسل بھی ہونا پڑا اور وہ ہتھکڑی میں وکٹری کا نشان بناتے جیل چلے گئے۔۔ ۔۔ تحریک انصاف کے پراپیگنڈا سیل کو بھی مشورہ ہے کہ “سات سمندر پار”آکسفورڈ یونیورسٹی کی “جگالی”چھوڑیں،نارووال جاکر دیکھیں کہ احسن اقبال کسے کہتے ہیں۔۔۔؟؟؟ بہر حال وزیر واقعی وزیر ہو تو ایک ہی کافی ہوتا ہے۔۔۔۔چاہے وہ شکرگڑھ کے طارق انیس صاحب ہوں یا نارووال کے جناب احسن اقبال۔۔۔۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ وزیر ہو تو جناب احسن اقبال جیسا۔۔(امجد عثمانی)۔۔