رپورٹ: ناصر جمال۔۔
وزارت توانائی میں دوہرے معیارات قائم کئے گئے ہیں۔ پاور ڈویژن میں داخلہ محدود کرنے کے تمام دروازے ہٹا دیئے گئے ہیں۔ جبکہ پٹرولیم ڈویژن کو باقاعدہ ’’چھائونی‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں وزیر مملکت اور پٹرولیم ترجمان سوالات کے جوابات دینے سے گریزاں ہیں۔تفصیلات کے مطابق 75سالوں میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پٹرولیم ڈویژن (وزارت) میں صحافیوں اور کمپینوں کے نمائندوں کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔ سیکرٹری سے لیکر تمام آفیسر اور دوسرا اسٹاف لفٹس کے پاس قائم، تجاوزات پر مبنی قائم کمرے میں ملاقاتیوں سے آکر مل سکتا ہے۔ جبکہ اُسے اپنے آنے کا مقصد بھی بتانا ہوگا۔ استقبالیہ پر اس کے لئے خصوصی طور پر عملہ تعینات کیا گیا ہے۔ جو جاسوسی پر مبنی رپورٹ روزانہ وزیر مملکت کو پیش کرتے ہیں۔ صرف وزیر مملکت ہی جس کو چاہیں، شرف بازیابی بخش سکتے ہیں۔ایک طرف جب، ملک بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ ملاقاتیوں کے لئے خصوصی طور پر تیار کئے گئے میٹنگ روم پر لاکھوں روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ نئے صوفے، بڑا ٹی۔ وی، کافی میکر، فرنیچر اور جدید وال پیپر شیشے کے کمرے میں لگائے گئے ہیں۔ یہ پیسے وزارت نے خرچ کئے تب بھی اسراف ہے۔ اور اگر کسی کمپنی نے خرچ کئے تو بھی غیر قانونی ہے۔
کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت کو ’’چھائونی‘‘ میں تبدیل کرنے والے سابق فوجی کیپٹن (سیکرٹری) احمد محمود، کیپٹن(ر) انوار اور کیپٹن(ر) شہباز ندیم (جوائنٹ سیکرٹریز) ہیں۔جبکہ اس کے برعکس وزارت کے معتبر ذریعے کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ وزیر مملکت مصدق ملک کے احکامات پر ہوا ہے۔ جو وزارت کو چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ ان کے ہر کسی سے سینگ پھنسے ہیں۔ انھوں نے صحافیوں اور پٹرولیم کمپنیوں کے نمائندوں پر وزارت میں داخلے پر پابندی اس لئے لگائی ہے کہ افسران صحافیوں کو بلا کر ’’خبریں‘‘ دیتے ہیں۔ جبکہ کمپنی کے نمائندوں سے ’’تحفے ‘‘ وصول کرتے ہیں۔ اور انھیں اندر کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔وزارت کے ذریعے کا دعویٰ ہے کہ سیکرٹری نے اپنے آنے کے بعد کسی کے داخلے پر پابندی عائد نہیں کی۔
وزارت کے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مصدق ملک کو وزارت کا چارج ملنے کے بعد گیس کمپنیوں میں معاملات بہت خراب ہوئے ہیں۔ سوئی سدرن تو عملاً دیوالیہ ہوچکی ہے۔ اس کا BCF 5 پر UFG بند ہوا ہے۔ کمپنی نے انھیں پہلی ہی بریفنگ میں ماموں بنایا۔ BCF 59 کو 53 BCF دکھایا اور دعویٰ کیا کہ وہ اسے 50 BCF سے نیچے رکھے گی۔ مگر 60 UFG بی سی ایف پر بند ہوا۔ وزیر مملکت کو مصدقہ ڈیٹا ایک ذریعے نے فراہم کیا۔ مگر وزیر مملکت نے اس پر کوئی ایکشن نہیں کیا۔ اور وہ انتہائی پراسرار خاموشی کے ساتھ کراچی سے واپس اسلام آباد آ گئے۔
وزارت کے ماتحت کئی کمپنیاں بغیر مستقل ایم۔ ڈی کے کام کررہی ہیں۔ بمشکل پی۔ پی۔ ایل کے ایم۔ ڈی کی تقرری ہوئی۔ ملک کی سب سے بڑی کمپنیOGDCLبغیر مستقل ایم۔ ڈی کے ہے۔ اسی طرح سے SSGCLکے بورڈ کی تشکیل میں مصدق ملک ناکام رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے بورڈ میں توسیع ہوئی۔ اور یہ بورڈ ابھی تک دوبارہ تشکیل نہیں دیا جا سکا۔ اس کے علاوہ بھی کئی کمپنیوں کے بورڈز ہیں۔ ایم۔ ڈیز اور بورڈ کی اکثریت PTIکی لگائی ہوئی ہے۔ڈاکٹر مصدق ملک کو لانے والے شاہد خاقان عباسی تھے۔ ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ مصدق ملک اور سابق وزیر اعظم کے مابین بھی سرد تعلقات ہیں۔ نامعلوم دبائو کی وجہ سے وہ اکثر افسران پر برہم نظر آتے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہورہے کہ وہ اپنے سمیت سب سے لڑے ہوئے ہیں۔ نئے بورڈز کی نامزدگیوں میں بھی وہ کسی کو خاطر میں نہیں لارہے۔ انھوں نے اپنے ’’گرین پین‘‘ سے ایک لاگ ہی لسٹ مرتب کی ہوئی ہے۔
وزیر مملکت کا زیادہ تر وقت ٹی۔ وی پروگرامز میں شرکت پر گزرتا ہے۔ جبکہ حساس ترین وزارت زیادہ وقت اور تیز فیصلہ سازی مانگتی ہے۔ جبکہ ایک ذریعہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھوں نے حساس ادارورں کی فائلز بھی روکی ہوئی ہیں۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ اُن سے کہو، مجھے وزارت سے نکلوا دیں۔ حالانکہ وہ روٹین مسائل پر مبنی ہیں۔ تیل اور گیس کی تلاش میں کام کرنے والے کمپینوں کے مسائل پہلے سے زیادہ بڑھے ہیں۔ ملک میں صرف ایک غیر ملکی کمپنی بچی ہے۔ وہ بھی اپنا آپریشن بیچنے کے لئے بات چیت کررہی ہے۔
وزارت توانائی پٹرولیم ڈویژن میں حالات، پی۔ ٹی۔ آئی دور سے زیادہ ابتر ہیں۔اس پوری صورتحال پر پٹرولیم انڈسٹری کے لوگ شدید پریشان ہیں۔ وزیر مملکت کو وزارت کو چھائونی بنانے پر سوال نامہ بھیجا گیا۔ انھیں مسلسل ریمائنڈر بھیجے گئے۔ مگر انھوں نے اور وزارت کے ترجمان نے بھی جواب نہیں دیا۔(ناصر جمال)