تحریر: ڈاکٹر مجاہد منصوری۔۔
پاپا رازی(Papa Razzi) فوٹو گرافی، فوٹو جرنلزم کی ایک بہت دلچسپ اور قابلِ بحث(کہ یہ منفی ہے یا مثبت) صنف ہے۔ پاپا رازی وہ فری لانس فوٹو گرافر ہوتے ہیں جو پاور فل لینز کے کیمرے سے لیس، اس کے استعمال کے ماہر اور بڑے بڑے پبلک فگرز کی معمول سے ہٹ کر انتہائی نجی لمحات میں ان کی حرکات و سکنات، لمحات، لطیفہ اور اوقات خلوت کو کیمرے کی آنکھ سے ریکارڈ کرنے میں مہارت ہی نہیں رکھتے بلکہ یہی کچھ ان کا پیشہ یا کاروبار ہوتا ہے۔ میڈیا مارکیٹ میں ان کی ایک ہی مطلوب تصویر اور اب ویڈیو بھی اتنے بھاری معاوضے پر خریدی جاتی ہے کہ اس کے لئے یہ جو پاپڑ بیلتے ہیں، یہ وہی جانتے ہیں کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی شرارتی دلچسپی اور تفریح طبع کا ساماں لئے ایسی کوئی ایک ہی تصویر یا ویڈیو بنانے کے لئے یہ جان بھی جوکھوں میں ڈال دیتے ہیں۔ فلمی اداکار، اتھلیٹس، سیاستدان اور بڑے بڑے Celebrities انکے پیشہ ورانہ ہدف ہوتے ہیں۔ لبرل دنیا کی آزاد صحافت کا ایک شعبہ ایسا ہوتا ہے جو پاپا رازیوں کی محنتِ شاقہ اور بڑے ذریعہ معاش کی پُرکشش کافرانہ تصویروں کو عام کرنے کیلئے گلیمر میگزین و اخبارات کی شکل میں موجود ہے۔ شوٹڈ کلپس کے لئے کچھ ایسی ویب سائٹس اب سوشل میڈیا ایسا سرگرم شعبہ ہے جہاں رقم کی ادائیگی پاپا رازیوں کی محنت کا مہنگے فلم ٹکٹ کے برابر پیسے خرچ کر کے دیکھنا عام ہی نہیں بلکہ اس نے لبرل مغربی معاشروں کو بھی شیطان شناس بنا دیا ہے اور اہلِ مشرق بھی مغربی لائف اسٹائل کے اِس غضباک چونچلوں سے نہ بچ پائے بلکہ اُن سے مقابلے پر اتر آئے ہیں، چونکہ یہ سب کچھ سوشل میڈیا میں بے پناہ سامان علم و فضل و خیر و برکت کے متوازی، برابر کا ہے، بندشیں، قانون، قانون سازی اور سائبر کرائمز کو کنٹرول کے انتظامی اقدامات اس بگاڑ یا بھگار کا کچھ نہیں بگاڑ پارہے، اس لئے سوشل میڈیا کی ادارہ سازی، قانون سازی اور جو ہے اس پر بےاثر عملدرآمد کے باعث مین اسٹریم یا روایتی ماس میڈیا کے مقابل اس(سوشل) میڈیا کی کریڈیبلٹی نہیں بن پارہی اور پوری دنیا کی عدالتوں اور قانون ساز اداروں میں یہ بحث تمحیص اور غور و خوض جاری ہے کہ سوشل میڈیا کو کیونکر شفاف انفارمیشن، نالج، تعلیم عامہ اور صحت مند تفریح کا ہی ذریعہ بنایا جائے اور اس کے شیطانی اور کافرانہ پہلوئوں سے بچا جائے۔ گویا سوشل میڈیا انسان میں پائے جانے والی ایسی خیر و شر کا ذریعہ مسلسل اور پھیلتا بڑھتا ذریعہ بن گیا ہے کہ کُل عالم پریشان ہے کہ اس کے ٹو ان ون سے فقط خیر ہی خیر کیسے کشید کی جائے؟ میڈیا کریٹکس کے لئے اس بڑے اہم اور حساس سوال کے کتنے ہی جواب کا ہونا، میڈیا ایشوز میں سرِفہرست بن گیا ہے۔
روایتی جرنلزم کی سب سے سرگرم، اہم اور پیشہ وری کے تقاضوں پر اترنے والی صنف نیوز رپورٹنگ ہے۔ نیوز رپورٹنگ کثیر الجہت ہے۔ اس کی ایک جہت یا اسپشلائزیشن کارنر رپورٹنگ جو غیر معروف ہے لیکن یہ جتنی لو پروفائل میں پریکٹس ہوتی ہے، اتنی حساس اور اہم ہے، ہمارے ہاں صحافیوں کی بڑی تعداد(حتیٰ کہ رپورٹرز کی بھی) اس سے اس لئے واقف نہیں کہ دانستہ میڈیا سے بچ کر ہونے والے اجلاس، میٹنگز، ون ٹو ون ملاقاتوں کی رپورٹنگ کو ممکن بنانے کا ہمارے اور اس کے لئے سازگار حالات بنانا بھی کوئی آسان نہیں ہوتا، چونکہ ہمارے سینئر صحافی بھی اس سے ایٹ لارج ناواقف ہی ہیں اس لئے نوجوان رپورٹرز بھی اس سے واقف نہیں ہوئے جبکہ کارنر رپورٹنگ کام ہوشیار رپورٹرز کا ہی ہے۔
مشرقی معاشرت کی اقدار نے ہمارے ہاں پاپا رازی جرنلزم کی تو گنجائش ہی پیدا نہیں ہونے دی کہ یہ ہمارے قانون، نہ معاشرے کو قبول ہے، تاہم کارنر رپورٹرنگ کی بھی کوئی صورت ملکی صحافت کے طلاطم میں کوئی گنجائش نہیں بن سکی۔ اس کے لئے اہتمام جرنلزم کے اکیڈمکس میں بھی واضح نہیں تاہم یہ کسی نہ کسی فیصد کے ساتھ پریکٹس مجھے اپنے لیونگ جرنلزم کے 10سالہ کیرئیر میں بطور نیوز رپورٹر کارنر رپورٹنگ کرتے ہوئے رپورٹنگ کیرئیر کی سکوپ(بہت دلچسپی کی حامل مکمل منفرد خبر) برابر خبر بنانے کا موقع ملا، جب شمالی لاہور کے محلے شاد باغ میں جمعیت علمائے پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف وکیل محمد رفیق باجوہ کے گھر بھٹو حکومت کی اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں کے مڈنائٹ اجلاس کے ختم ہوتے ہی کارنر رپورٹنگ سے بنائی گئی رپورٹ، ’’بھٹو حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے قیام‘‘ اور طے پانے والی اس کی جملہ تفصیلات پر مبنی خبر اپنے اخبار(روزنامہ وفاق) میں خبر کے منتظر ایڈیر جناب جمیل اطہر کو رفیق باجوہ صاحب کے گھر کے فون سے رات کوئی ڈیڑھ بجے لکھوائی اور سکوپ کے طور اخبار کے صفحہ اول پر صبح شائع ہوئی جبکہ اجلاس میں طے پایا تھا کہ باہر منتظر اخباری رپورٹرز کے ہجوم کو ابھی کچھ بریف نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس وقت مطلوب کوریج نہیں ہو گی اور صبح مسلم لیگ ہائوس میں قومی اتحاد کے بنائے گئے صدر مولانا مفتی محمود سیکرٹری اور جنرل پروفیسر غفور پریس کانفرنس کر کے قوم کو پی پی کے خلاف بننے والے قومی اتحاد کا اعلان کریں گے۔ اس خبرکے سارے مندرجات میں نے اجلاس والے کمرے کے روشن دان جو چھت پر کھلتا تھا سخت سردی میں بیٹھ کر روشندان سے کان لگا کر نوٹ کئے۔ یہ سہولت مجھے باجوہ صاحب کے چھوٹے بھائی نے فراہم کی تھی اور مجھے جزوی منظر اور تمام آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ جمیل اطہر صاحب کو سازگار ماحول بنتے ہی کاپی روکے رکھنے اور خبر کے انتظار کی درخواست کی تھی جبکہ منتظر ملک بھر کا میڈیا اس خبر کے ساتھ خالی لوٹا، کہ اپوزیشن لیڈرز کا اجلاس ہوا جس کے فیصلے سے کل قوم کو آگاہ کیا جائے گا۔
آج کل سوشل میڈیا پر متنازع وڈیو کلپس بن کر شام کو ٹی وی اسکرینوں پر عدالتیں لگنے کا آغاز ہوتا معلوم دے رہا ہے لیکن یہ کارنر رپورٹنگ سے بننے والی وڈیو نہیں بلکہ ان کا اوریجن سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل معلوم دیتے ہیں، مین اسٹریم میڈیا اس کے جارحانہ فالو اپ میں جاکر اپنی پیشہ ورانہ اہمیت کو بری طرح متاثر اور سوشل میڈیا کی پراڈکٹ(وہ بھی واضح طور پر جماعتوں کے میڈیا سیل کی) کو اپنی مجموعی صحافت پر حاوی کر رہا ہے۔ اس سے قومی صحافت قانون سازی کا عمل اور صحت مند سیاسی جمہوری عمل متاثر ہورہے ہیں، غور فرمائیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔