punjab kpc noon league ka mustaqbil makhdoosh hai

وطن عزیز کیلئے دو ماڈل زیرغور ہیں، سہیل وڑائچ۔۔

وطن عزیز میں اس وقت “6 سال یا 10 سال”کونسے 2ماڈل زیر غور ہیں۔۔۔ ؟  اس حوالے سے سینئر صحافی و تجزیہ کار  سہیل وڑائچ نے  اپنے تازہ کالم میں   اہم تفصیلات شیئر کر دی ہیں ۔انہوں نے لکھا کہ تضادستان کی خوشحالی اور مستقبل کے حوالے سے ان دنوں 2 ماڈل سامنے آ رہے ہیں۔ ایک سیاسی ماڈل ہے جو ممکنہ طور پر بننے والی سیاسی حکومت کے لیڈروں کے ذہن میں ہے۔ یہ ماڈل 10 سال کا ہے جس میں مقتدرہ اور وہ سیاسی جماعت 10 سال مل کر چلیں گے کہ معاشی پالیسیوں پر طویل مدت کیلئے عمل پیرا ہوا جائے تب جا کر ملک میں خوشحالی کے امکانات پیدا ہوں گے۔ دوسرا ماڈل مقتدرہ کا ہے۔ ایس آئی ایف سی نامی جو اعلیٰ اختیاراتی ادارہ بنایاگیا ہے اس کی سربراہی اگرچہ وزیر اعظم کرتے ہیں مگر اس میں مقتدرہ کی بھی بھرپور نمائندگی اور سرپرستی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ ماڈل مل گیا تو پہلے 3 سال میں ملک بحران سے نکل آئے گا اور مزید اگلے3 سال میں زرعی اور معاشی انقلاب آ جائے گا۔نونی دماغوں کی رائے ہے کہ جب نواز شریف پہلی بار وزیر اعلیٰ بنے تھے تو پنجاب کی سیاست پیپلز پارٹی کے گرد گھومتی تھی، پنجاب کسی زمانے میں لاڑکانہ ہو ا کرتا تھا، پھر نونی قیادت کے بقول انہوں نے ترقی کے ماڈل کو اپناتے ہوئے 1990میں پیپلز پارٹی کے سحر کوتوڑنا شروع کردیا اور پھر ایک وقت آیا کہ پنجاب (ن) لیگ کیلئے گوالمنڈی کا حلقہ بن گیا۔ نونی کہتے ہیں کہ اگر انہیں مقتدرہ کی خلوص کے ساتھ حمایت حاصل رہے تو وہ 10 سال میں نہ صرف ملکی معیشت کو ٹھیک کردیں گے بلکہ تحریک انصاف کا جادو بھی توڑ دیں گے، ان کے بقول جس طرح انہوں نے پیپلز پارٹی کو پنجاب سے دیس نکالا دیا تھا ویسا ہی دیس نکالا وہ تحریک انصاف کو بھی دے سکتے ہیں۔کالم کے  آخر میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ جنرل حمید گل کو فارن پالیسی ایکسپرٹ بنا دیا گیا اور جنرل تنویر نقوی کو سیاسی نظام کی بہتری کا ٹاسک دے دیا گیا۔ جنرل حمید گل کی افغان پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اسی افغانستان سے ہم پر حملے ہو رہے ہیں جس کی ہم نے سالہاسال مدد کی، معاشی اور جانی نقصانات اٹھائے۔ جنرل تنویر نقوی نے اہل سیاست کو شامل کئے بغیر نیا نظام دے ڈالا جونہی اہل سیاست آئے انہوں نے ان کے نظام کو لپیٹ ڈالا۔ اسی طرح نونی قیادت نے جو پروگرام بنایا ہے اس پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ تضادستان میں کسی کو بھی 10 سال کی حکومت نہیں ملتی یہاں 3 سال مل جائیں تو غنیمت ہے، اس لئے اسے شارٹ ٹرم پالیسی ترتیب دینی چاہیے تاکہ جو بھی بہتری وہ کرنا چاہتے ہیں اسکے اثرات جلدی سے جلدی نظر آئیں۔  نونی قیادت ابھی تک پرانی ٹیم پر بھروسہ کئے ہوئے ہے، نوجوان آگے لائیں گے تو بات بنے گی۔سیاسی اور عسکری منصوبے بنانے والوں سے  عرض ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو بھی قومی اورسیاسی دھارے میں شریک ہونے دیا جائے، اگر ان کے ساتھ بیگانگی کا سلوک جاری رہا تو اندیشہ ہے کہ ملک کی اس نئی پارٹی کے لوگ ریاست اور سیاست سے بےپروائی کا رویہ اختیار کرلیں گے اور ایسا ہوا تو یہ بہت بڑا قومی نقصان ہوگا۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں