تحریر: خالد فرشوری۔۔
سینئر صحافی وارث رضا کو کراچی میں کچھ قانون نافذ کرنے والے پوچھ گچھ کے لئے اپنے ساتھ لے گئے تو اتنا شور کیوں؟
لے جانے سے پہلے ان کے گھر والوں کو بتا بھی دیا کہ انہیں پوچھ گچھ کے لئے لے جایا جارہا ہے پھر اتنا شور کیوں؟
جب پچھلے کئی کیسز میں صحافیوں کو بغیر گھر والوں کو اطلاع دئے لے جایا گیا تھا تو ہماری صحافتی تنظیموں نے ہی یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر مطلع کر کے لے جایا جاے تو “صحافیوں” کے “مزاج پر گراں نہیں گُذرے گا” پھر اتنا شور کیوں؟
جب وارث رضا پر تشدد بھی نہیں ہوا پھر اتنا شور کیوں؟
جب وارث رضا الحمدللہ خیریت سے گھر آگئے پھر اتنا شور کیوں؟
یہ شور اسی موقع پر کیوں ہو رہا ہے؟ یہ شور وارث رضا کی برسوں پُرانی بے روزگاری ختم کرانے کے لئے کیوں نہیں ہوا؟سالوں قبل ان کو نوکری سے نکالے جانے کی وجوہات کے خلاف کیوں نہیں ہوا؟
کیا ہم صحافی ہر قانون سے بالا تر ہیں؟ کیا ہم بدمعاش بننے جا رہے ہیں؟ کیا ہمیں کسی قانون کا طابع نہیں ہونا چاہئیے؟کیا کُچھ صحافتی تنظیموں کے یونین لیڈرز آذادی اظہار کا بہانہ بنا کر اپنے ذاتی جرائم سے قانون نافذ کرنے والوں کو چشم پوش رہنے کا اشارہ دے رہے ہیں؟
کیا ہمارے نام نہاد صحافی لیڈرز پر ذہینوں پہ قبضے کے الزامات نہیں ہیں؟ کیا ہمارے کُچھ نہاد لیڈرز “لڑکیاں چھیڑنے “کے جُرم میں زیر تفتیش نہیں رہے؟ کیا ہمارے اکثر صحافی رہنما میڈیا ورکرز کی بہبود کا جھوٹا ڈھونگ رچا کر میڈیا مالکان کے حقوق کا تحفظ نہیں کر رہے؟
کیا ایسا ممکن نہیں کہ مجھ سمیت کوئی صحافی دانستہ نا دانستگی میں کسی اینٹی پاکستان بیانئیے کا علمبردار بن جاے؟
کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے “آزادی اظہار والا استسنا” دے دیں؟
ہر گز نہیں اگر میری کسی فیس بک، ٹوئیٹر انسٹا گرام یا واٹس ایپ پوسٹ سے ملک دشمنی، بیرونی ایجنڈے کے پرچار یا ریاست پر بلا جواز کیچڑ اچھالنے کی بو آے تو مجھ سے پوچھ گچھ ہونا چاہئیے؟ میری آنکھوں پر پٹی بھی بندھنا چاہئیے، اور اگر میں شرافت سے نا اگلوں تو “دوسرے طریقے “ سے مجھ سے یہ پتہ کیا جانا چاہئیے کہ میرے عزائم کیا ہیں؟ میں کسی کا اعلیٰ کار بنا ہوا ہوں یا صرف فیشن کے تحت مشہور ہونے کے لئے اپنے ملک، اپنی فوج اور اپنے مذہب کو گالیاں دے رہا ہوں؟
وارث رضا کو میں طویل عرصے سے جانتا ہوں وہ عمر میں مجھ سے بڑے ہونے کے باوجود میرے بے تکلف دوست ہیں مگر مجھے یہ پتہ کرنے کا اختیار نہیں ہے کہ قانون نافذ کرنے والے انہیں کیوں لے گئے؟ کیا پوچھا، کہاں رکھا؟کب چھوڑا ؟ اور کیوں چھوڑا؟ وارث رضا خود جانتے ہونگے کہ کیا معاملہ تھا اور یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ بنا تحقیق، بنا ثبوت، بلا اشتعال، کسی پر راشن پانی لے کر ذیادہ دیر دوڑا جاے گا اور اسے اپنی ادا بنا لیا جاے گا تو جواب بھی دینا ہوگا۔
میں اس پوسٹ کے ذریعے اپنی تمام صحافتی تنظیموں سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ اسی دھڑکے کے ساتھ میڈیا مالکان سے میڈیا ورکرز کے خلاف جاری ان کی ناانصافیوں کا حساب کیوں نہیں مانگتیں؟وہاں” پر “ کیوں جلتے ہیں؟(خالد فرشوری)۔۔