تحریر: ایاز امیر۔۔
اللہ کا کرنا ہے کہ تحر یک عدمِ اعتماد کی واردات کا حساب برابر ہو گیا اور اس طریقے سے کہ عوام اَش اَش کر اُٹھے۔ ان بیس نشستوں پر الیکشن کا دن ذہنوں میں تازہ رہے گا۔ پورا دن عجیب کیفیت میں گزرا۔ پہلے وسوسے‘ کچھ ڈر بھی کہ پتا نہیں خفیہ ہاتھ کیا کر بیٹھیں گے۔ الیکشن کی ہیراپھیریوں میں نونیے بھی بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ وسوسے لہٰذا فطری تھے۔ یہ واضح تھا کہ عوامی جذبات خان کے ساتھ ہیں لیکن پھر بھی دل میں دھڑکاکہ کچھ انہونی نہ ہو جائے۔
وسوسوں کا بہتر علاج یہی سمجھا کہ کچھ سو لیا جائے۔ بیدار ہوئے تو چائے کا کپ پیااور نتائج کا انتظار کرنے لگے۔ پہلا فون چکوال سے راجہ نذیر کا آیا کہ سوائے ایک آدھ جگہ کے ہر طرف پی ٹی آئی آگے ہے۔ یقین مانئے اس خبر پر زیادہ یقین نہ کیا۔ سوچا کہ شروع شروع کے نتائج ہیں ابھی تو بہت منزلیں باقی ہیں۔ پھر ہمت کرکے ٹی وی خود آن کیا۔ اے آر وائے پی ٹی آئی کو آگے دکھا رہا تھا‘ دل میں خیال اُٹھا کہ شاید اس چینل کی یہ کوئی چال نہ ہو۔ ریموٹ سے چینل تبدیل کیے تو دیکھا کہ پی ٹی آئی ہرطرف آگے ہے۔ ٹی وی پہ اپنے پروگرام کا وقت آیا تب تک واضح ہو چکا تھا کہ پی ٹی آئی نے میدان مارلیا ہے اور اس انداز سے کہ اگلوں کے ہوش اُڑ چکے ہوں گے۔ پروگرام پر بیٹھے تو ظاہر ہے کہ نونی خیالات کا اظہار بھی ہوتا رہا۔ پہلی ہنسی تو اس بات پر آئی کہ یہ سیٹیں تو نون لیگ کی تھیں ہی نہیں‘پی ٹی آئی نے اپنی ہی سیٹیں جیتی ہیں۔ بے اختیار میرے منہ سے لفظ سبحان اللہ نکلا اور میں نے کہا استاد استاد ہی رہتے ہیں۔ کیا خوبصورتی کی بات نکالی ہے۔ پروگرام میں اسی انداز کے خیالات اٹھتے رہے لیکن پریشانی اور خفگی عیاں تھی۔ پریشانی ہونی بھی چاہئے تھی کیونکہ بہتوں کیلئے نتائج حیران کن کیا ناقابلِ تصور تھے لہٰذا جہاں تک حساب کی بات ہے وہ برابر ہوچکا۔ یہ ضمنی انتخابات ایک خاص ٹینشن کا سبب بنے ہوئے تھے‘ وہ ٹینشن دور ہو گئی۔
اب وقت تھوڑا مزہ لینے کا ہے۔ جیسے بلی چوہے کو گھیر لیتی ہے‘ ایک دم اُس پر جھپٹتی نہیں۔ کبھی یہاں سے روکتی ہے کبھی وہاں سے۔ چوہے کا حال جو ہوتا ہے اُس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن بلی مزے لے رہی ہوتی ہے۔ یہی کیفیت میدانِ جنگ میں ہوتی ہے جب حریف آپ کے شکنجے میں آچکا ہو اور اُس کے بچنے کی کوئی صورت نہ رہے۔ پنجاب میں اب جو ہونا ہے اگلے چند روز میں مکمل ہو جائے گا‘اُس کے بارے میں بھی اب زیادہ ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں۔ ہر تدبیر کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے لیکن نونیے کبھی ایسی بری طرح پھنسے نہیں۔ سرکار اُن کی‘ انتظامیہ اُن کی‘ہاتھ رکھوں کا ہاتھ اُن پر‘ لیکن پھر بھی پانی پت کی ہاری ہوئی جنگ کا مزہ اُنہوں نے چکھ لیا ہے اور اوپر سے نیچے تک حالت دیدنی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت قائم ہوتے ہی انتظامیہ پر گرفت سخت ہونی چاہئے۔ چوہدری صاحب کوحکمرانی کے گُر کون سکھائے‘ تجربہ کار ہیں اس میدان میں۔ نونیوں کا مزاج بھی جانتے ہیں کیونکہ ایک زمانے میں اُنہی کے ہوا کرتے تھے۔ بہتر علاج وہ معالج کرتا ہے جو مریض کی حالت جانتا ہو۔
رہ گیا قلعۂ اسلام آباد تو اُس کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ جس دارالحکومت کے پاس کچھ رہے ہی نہ اُس کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے۔ لاہور میں تبدیلی کے بعد اسلام آباد میں رانا ثناء اللہ کے دھمکی آمیز بیانات کے علاوہ کیا رہ جائے گا؟ وہ وہاں بیٹھ کرغداری کے مقدمات بناتے رہیں قوم سنتی رہے گی۔ ویسے بھی جب سے یہ حکومت آئی ہے حکومت کم اور ناٹک زیادہ لگ رہا ہے۔ لاہور میں جو ہونا ہے ہو جائے تو اسلام آباد میں ایک کامیڈی شو رہ جائے گا اور وہ بھی اونچے درجے کا نہیں بلکہ گھسی پٹی جگتوں والا شو‘ جو کم تر تھیٹروں میں منعقد ہوتا ہے۔ یعنی اچھے پائے کی کامیڈی بھی قوم کو میسر نہ ہو گی۔
مطلب یہ کہ عمران خان کو کوئی طوفانی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت نہیں۔ جلدی کریں گے تو اپنا نقصان کریں گے۔ کارناموں کا ڈھیر جو اس حکومتی بندوبست نے دو تین ماہ میں اکٹھا کر لیا ہے اُس میں جلدی سے گھسنے کی کوئی منطق نہیں بنتی۔ معاشی محاذ پر جو غلط فیصلے اس بندوبست کو کرنے پڑ رہے ہیں انہیں کرنے دیں۔ ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے تو پی ٹی آئی کا کیا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے ہاتھ میں دو اہم صوبے ہیں‘ خیبرپختونخوا اور پنجاب۔ اُن میں حکمرانی زیادہ مضبوط ہونی چاہئے خاص طور پر پنجاب میں جہاں نونیوں کے اثرات پھیلے ہوئے ہیں۔ انتخابات کا اعلان کرنا ہی پڑے گا‘ آج نہیں تو کچھ عرصہ بعد‘ اس سال نہیں تو اگلے سال۔ یا تو پی ٹی آئی کسی صحرا میں بیٹھی ہو پھر تو فکر ہو کہ ہمیں شہروں پر قبضہ کرنا چاہئے۔ لیکن جب ہر خاطر خواہ چیز پی ٹی آئی کے کنٹرول میں ہو اور نون والوں کے پاس مفہوم اور معنی سے خالی دارالحکومت رہ جائے تو پھر کیا فکر رہ جاتی ہے۔ گلے سڑے فروٹ کی طرح اسلام آباد بھی پی ٹی آئی کی جھولی میں آ جائے گالیکن اُسے جھولی میں لینے کی اتنی جلدی نہیں ہونی چاہئے۔
اب سے اپنی تیاری کریں‘ پہلے دورِ حکمرانی کی غلطیوں پر غور کریں۔ بہتر ٹیم کا انتخاب اب سے شروع کریں۔ اب تو مصنوعی سہاروں کی ضرورت نہیں رہی۔ کڑے وقت میں عمر سرفراز چیمہ لاہور میں کیسے کام آیا تھا۔ ایسے لوگوں کو آگے لانا چاہئے۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے پاس جنگجوؤں کی ایک فوج ہے۔ ایسی فوج پنجاب میں بھی ہونی چاہئے۔ یہاں بھی ایک آدھ علی امین گنڈا پور اور علی محمد خان ہو۔ پنجاب میں بھی کوئی قاسم سوری ہو۔
حکومت سے نکالے جانے کو عمران خان خدا کی طرف سے ایک نعمت سمجھیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے لگتا تھا عمران خان کے سینے میں آگ بجھ چکی ہے۔ یہ جو اب قوم لیڈر دیکھ رہی ہے یہ ان حالا ت کی پیداوار ہے۔ آزمائش میں ڈالے گئے تو عمران خان اُس پر پورا اترے۔ یہی اُن کا کمال ہے اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے ضمنی انتخابات کا میدان اس بھرپور انداز سے مارا۔ سکول کالج میں کمزور طالب علم سال دہرائے تو بہتر نتائج نکلتے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ اگلوں نے سمجھا کہ نکالے جانے کے بعد ختم ہو گیا ہے یا ختم ہو جائے گا۔ آزمائش سے گزر کر اُس میں نئی توانائی آئی ہے‘سوچ بھی پختہ ہوئی ہے‘ شخصیت میں زیادہ ٹھہراؤ آیا ہے۔ اسی لیے اصل نکالنے والے حیران و پریشان ہیں۔ اُنہیں کوئی سمجھ نہیں آ رہی۔ سوچا اُنہوں نے کچھ اور تھا نتیجہ کچھ اور نکل آیا اور ایسا نتیجہ کہ اُس کے بارے میں کچھ کرنہیں سکتے۔ عوام بپھرے ہوئے ہیں۔ غصہ تو دلوں میں تھا لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج کی وجہ سے غصے سے بھرے دلوں میں ٹھنڈ اور چاشنی بھی اُتری ہے۔
عوام اب پیچھے کی طرف نہیں دیکھ رہے‘ اُن کی نظریں اب آگے کی طرف ہیں کہ قوم کا کیا بنے گا۔ یہ تھکے ہارے لوگ جو یہاں حکومتیں کرتے آئے ہیں اور جن کی کارستانیوں کی وجہ سے ملک کی یہ حالت بن چکی ہے وہ مایوس ہوں گے کہ اقتدار پر اُن کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ عوام مایوس نہیں۔ مہنگائی اور دیگر تکالیف کے باوجوداس ملک کے بیشتر عوام اب بھی امید رکھتے ہیں کہ میرِ کارواں میسر آ جائے تو کاروان درست سمت نکل سکتا ہے۔ میرِ کارواں تو مل گیا۔ اس حوالے سے کوئی شک نہ رہے۔ سب سے بڑی آزمائش حکمرانی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس پر بھی پورا اترا جاتا ہے کہ نہیں۔(بشکریہ دنیانیوز)