تحریر: انصار عباسی۔۔
بجلی کے بلوں نے پہلے سے ہی مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو پریشان کر دیا ہے۔ بجلی کے بل غریب کی مہینے کی کل کمائی سے بھی زیادہ آ گئے ہیں۔ غریب کیا مڈل کلاس کے بس سے بھی اخراجات باہرہو گئے ہیں۔ عوام سراپا احتجاج ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں لوگ احتجاجاً بجلی کے بل جلا رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ بجلی کے بلوں پر ٹیکس اور سرچارچ کے نام پر اضافہ واپس لیا جائے۔ ابھی چند ایک روز میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں جاری کمی کی وجہ سے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گا، جو عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گرائے گا۔ پیٹرول اور ڈیزل مہنگا ہو گا تو سب کچھ مہنگا ہو جائے گا۔ بجلی بھی مزید مہنگی ہو گی۔ ایک طرف بجلی کو مہنگا کر دیا گیا دوسری طرف اس پر ٹیکسوں اور سرچارچ کی صورت میں اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کیلئے ناممکن بنا دیا کہ وہ بجلی کے بل ادا کرسکیں۔ کسی کو بجلی کے بل ادا کرنے کیلئے ادھار لینا پڑ رہا ہے تو کوئی اپنے گھر کا سامان یا زیور بیچ کر بل ادا کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کی چوری اور حکومتی نااہلی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو عوام پر بوجھ ڈال کر پورا کیاجاتا ہے۔اگر حکومت بجلی کی چوری اور نظام سے متعلق نقصانات کو کم کرنے پر توجہ دیتی تو عوام پر اتنا بوجھ نہ پڑتا۔ جو بجلی چوری کرتا ہے، جو بل ادا نہیں کرتا اور جتنا نقصان بجلی کی ترسیل کے نظام میں حکومتی نااہلی کی وجہ سے ہوتا ہے اس سب کا بوجھ عام صارف پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اوپر سے غریب عوام کو جب یہ پتا چلتا ہے کہ حکمراں اشرافیہ نہ بجلی کا بل دیتی ہے نہ اُنہیں اپنی جیب سے پیٹرول بھروانا پڑتا ہے، اُن کی تو گیس بھی فری، گاڑیاں بھی سرکاری، پیٹرول بھی سرکاری تو اس سے لوگوں کے غم و غصہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرکاری دفتروں میں بجلی کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے جس کا بوجھ بھی عوام پر پڑتا ہے۔ بجلی کے محکمہ کے ملازمین کو بھی مفت بجلی دی جاتی ہے اور اس کا خرچ بھی عام صارف پر ڈالا جاتا ہے۔ لوگوں کا صبر جواب دے رہا ہے۔ اب یہ سلسلہ مزید ایسے نہیں چل سکتا کیوں کہ عوام بجلی کے بل ادا کریں گے تو باقی اخراجات کہاں سے پورے کریں گے۔ ایک سیکورٹی گارڈ جس کی تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے ہے اُس کا بل تیس ہزار روپے آیا۔ اب وہ بچارا کیا کرے۔ ایک ماہ اگر وہ کسی نہ کسی طرح ادھار لے کر یا کسی دوسرے ذریعے سے یہ بل ادا بھی کر دے تو اگلے مہینے کیا ہو گا اور یہ ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں افراد کا المیہ ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ چند دنوں میں پیٹرول مزید مہنگا ہونے سے موجودہ احتجاج میں مزید اضافہ ہوگا۔ ملک کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو کچھ بنیادی فیصلہ کرنا پڑیں گے۔ بجلی کے شعبے کی نااہلی اور اشرافیہ کی عیاشیوں کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالا جا سکتا۔گورننس اور معیشت کی بہتری کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ معاملات ایسے ہی چلتے رہیں اور قوم آئندہ سال ہونے والے انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی حکومت کا انتظار کرتی رہے۔ گورننس ٹھیک کرنے کا مطلب کھربوں کا نقصان کرنے والے اداروں کو درست کرنا ہے، عوام کے پیسے پر عیاشیاں کرنے والوں کی عیاشیاں ختم کرنا ہے جس کا فائدہ عوام کو ہو گا، غریب کو اس پیسے سے ریلیف ملے گا۔ سیاسی جماعتیں ان معاملات پر سیاست کرنے کی بجائے مل کرپاکستان کے معاشی اور انتظامی امور کی بہتری کیلئے حل تجویز کریں۔ یہ صورتحال اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی فوری توجہ کی متقاضی ہے کیوں کہ موجودہ سیٹ اپ کو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی جوڑتے ہیں۔ بغیر وقت ضائع کئے ہمیں اپنے معاشی اور انتظامی شعبوں کی خامیوں کو دور کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا کیوں کہ ہر دن اہم ہے اور اگر ہم آئندہ الیکشن اور اس کے نتیجے میں آنے والی حکومت کا ہی انتظار کرتے رہے تو پھر نقصان بہت زیادہ ہو سکتا ہے اور اس نقصان کا سب سے بڑا نشانہ عوام اور پاکستان ہوگا۔(بشکریہ جنگ)۔۔