تحریر: سعد خان
وقت اور تنخواہ یہ دونوں پہلوہی کسی بھی شخص کی زندگی میں ہمیت رکھتے ہیں مگر کسی ایسے شخص کی زندگی میں زیادہ اہم ہوتے ہیں جو ملازمت کرتا ہو۔ ہر ملازم مہینے کی آخری تاریخ کا انتظار کرتا ہے تاکہ اپنی تنخواہ وقت پر گھر لے کر جائے اور ضرورتِ زندگی کے حساب سے خرچ کر سکے۔ یہی وجہ ہوتی ہے وقت اور تنخواہ کی اہمیت کسی بھی ملازم کی زندگی میں ۔اگر ان دونوں پہلو میں سے کسی ایک کو بھی اہمیت نہ دی جائے تو و ہی حال ہوتا ہے جو میڈیا چینلز میں ملازمین کا ہوتا ہے۔ جی ہاں ہمارا میڈیا ویسے تو بڑا تیز ہے ہر خبر سے آگاہ بھی رکھتا ہے۔ دوسرے ادارے چاہے و ہ گورمنٹ ہوں یا پرائیویٹ میڈیا اس خبر سے لازمی آگا ہ کریگا کہ اس ادارے نے اپنے ملازموں کو تنخواہ نہیں دی۔ ابھی کچھ عرصے پہلے کی ہی خبر ہے جب شاہین ائیرلائن کی خبر نیوز چیلنز پر دیکھی ۔خبر دیکھ کہ معلوم پڑا ملازموں کو 3,3 ماہ تنخواہوں سے محروم رکھا گیا۔ یہ خبر جان کر افسوس تو بہت ہوا مگر پھر ایک پل کو خیال آیا جس نجی نیوز چینل پر خبر چل رہی تھی اس چینل نے تو خود اپنے ملازموں کو تنخواہوں سے محروم رکھا ہے مگر ان کی تو کوئی ایسی خبر نہیں چلتی تو کیا میڈیا چینلز کا کوئی حساب کتاب کرنے والا نہیں ؟ کئی مہینوں پہلے جب پاکستان کے نمبر ون میڈیا نیٹ ورک بول نیوز کے ملازمین نے احتجاج کرنا شروع کیا خواہ یہ احتجاج بھی تنخواہ نا ملنے پر تھا تو یہ خبر بھی سوشل میڈیا پر ہی دیکھی گئی ۔ آخر اس خبر میں ایسی کیا بات ہے جو کوئی نیوز چینل ایئر نہیں کرتا؟ اگر ایسی کوئی بات ہے بھی تو پھر دوسرے اداروں پر کیوں کیچڑ اچھالتا ہے؟ یہ تو ایک پہلو ہے جس پر میڈیا چینلز کبھی بات نہیں کرتے ۔ اب اگر بات کی جائے ڈا ون سائزنگ کے حوالے سے تو ا آپکو کوئی خبر نیوز چینلز پر تو نہیں ملے گی۔ شاہین ایئرلائن سے کئی ملازمین کو نکال دیا گیا یہ خبر تو خوب پیٹ پیٹ کر چلائی ۔ میڈیا سے کتنے ملازمین کو نکالا گیا اس بات کی خبر آپکو صرف اور صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی معلوم ہوگی۔ آج بھی کئی ایسے چینلز ہیں جہاں تنخواہ وقت پر نہیں ملتی۔ اس کی مثال اس ٹویٹ کے ذریعے جیو نیوز کی سابق نیوز اینکر سے ظاہر ہوتی ہے جو اینکر شہزاد اقبال کو جیوز نیوز جوائن کرنے پر مبارکباد دے رہی ہیں ساتھ ہی ساتھ تنخواہ وقت پر نا ملنے سے آگاہ بھی کر رہی ہیں مگر صرف سوشل میڈیا پر۔ میڈیاایک بڑی انڈسٹری ہے جہاں سینکڑوں افراد کام کرتے ہیں اور مزید طلبا اس انڈسٹری میں آنے کے خواہشمند بھی ہیں۔ مگر ان سب کی آواز کون سنے گا ؟ کوئی ہے جو اس میڈیا کو لگام دے۔۔(سعد خان)