wali babar mubeena qaatilon ki saza kaladam

ولی بابرکے مبینہ قاتلوں کی سزا کالعدم، تفصیلی فیصلہ جاری۔۔

جیو نیوز کے رپورٹر شہید ولی بابر قتل کیس کے ملزمان کی اپیلوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ملزمان کے بیان اور واردات میں مماثلت نہیں، استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے، لہٰذا ملزمان کو دی گئی سزا کالعدم قرار دی جاتی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ سرکٹ بنچ کی دو رکنی بنچ نے تفصیلی  فیصلہ جاری  کردیا۔ بنچ میں جسٹس محمد کریم خان آغا اور جسٹس ذوالفقار علی سانگی شامل تھے۔  سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ سرکٹ بینچ نے جیو نیوز کے رپورٹر ولی بابر قتل کیس میں قرار دیا ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش کا فائدہ ملزمان کو دیا گیا ہے ۔ استغاثہ کا یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ملزمان کا تعلق ایک دہشت گرد تنظیم سے ہے اس لیے عینی شاہد کا سامنے آنا مشکل ہے جس عینی شاہد کو سامنے لایا گیا وہ پولیس کی طرف سے پلانٹنڈ لگتا ہے وہ 6 ہفتوں تک بیان دینے لیےکس بات کا انتظار کرتا رہا ملزمان کی شناختی پریڈ نہیں کرائی گئی اور نا ہی پولیس ملزمان سے واردات میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور موبائل فونز برآمد کرسکی۔ سندھ ہائی کورٹ کی لاڑکانہ سرکٹ بنچ نے ولی بابر قتل کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں عدالت نے قرار دیا ہے ملزمان کی شناختی پریڈ کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں اور اس کا فائدہ ملزمان کو دیا جاتا ہے ملزم فیصل موٹا اور ذیشان عرف مانی کی شناختی پریڈ نہیں کرائی گئی اور نا ہی ذیشان عرف مانی کے بیان کو صحیح ثابت کرنے کیلئے کال ڈیٹا ریکارڈ پیش کیا گیا پولیس نے ملزمان سے کوئی موبائل فون برآمد نہیں کیا حالانکہ ذیشان عرف مانی کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ وہ ولی بابر کا پیچھا کرتے ہوئے اسکی لوکیشن سے فیصل عرف موٹا کو آگاہ کررہا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ ملزم ذیشان عرف مانی کے بیان اور واردات میں مماثلت نہیں ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں پولیس کی ناقص تفتیش کا بار بار ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفتیشی افسر نے واردات میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی برآمد نہیں کیا اور صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ واردات کے بعد اسلحہ چھپا دیا گیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ نا تو ملزمان کا ڈی این اے لیا گیا اور نا ہی ان کے فنگر پرنٹس ثابت ہوتے ہیں واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی کے حوالے سے یہ کہنا کہ وہ کوئی سپر مارکیٹ تھانے کے سامنے چھوڑ گیا تھا اور گاڑی کی پہلی تلاشی میں گلاس اور چپلوں کا نہ ملنا حیران کن ہے استغاثہ کے مطابق تین ہفتوں بعد گاڑی کی دوبارہ تلاشی میں گاڑی سے گلاس ملا اور اس پر ملزم کے فنگر پرنٹ تھے۔ عدالت نے استغاثہ کے گواہ عینی شاہد حیدر علی کے بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ عینی شاہد نے 6 ہفتوں بعد اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے اس حوالے سے اپنی آبزرویشن دیتے ہوئے عدالت نے کہا ہے کہ واقعہ جنوری کی راتوں میں ساڑھے نو بجے پیش آیا جس وقت کافی اندھیرا ہوجاتا ہے اور استغاثہ کی جانب سے اس موقع پر روشنی کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور نا ہی یہ بتایا گیا ہے کہ عینی شاہد واردات سے کتنے فاصلے پر تھا عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ استغاثہ قتل کا مقصد پیش کرنے میں ناکام رہا ہے اور نا ہی یہ بتاسکا ہے کہ قتل کیوں کیا گیا۔ ملزم کی جانب سے پولیس کی حراست میں دیئے گئے اعترافی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور اعترافی بیان کے بعد ملزمان کو جیل بھی نہیں بھیجا گیا بلکہ پولیس کی تحویل میں ہی رکھا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے، لہٰذا ملزمان کو دی گئی سزا کالعدم قرار دی جاتی ہے۔

ماہرہ خان نے آخرکار خاموشی توڑ دی۔۔
social media marketing
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں