wazir o wazarat qala bazi

وہی گھسا پٹا رونا

تحریر: خرم علی عمران ۔۔

اصل میں عنوان میں رونا سے پہلے ایک اور لفظ بھی لگایا تھا پھر مٹا دیا کہ زیادہ ہی عوامی اور تھڑہ چھاپ بن جاتا،تو بات کچھ یوں ہے صاحبوں کہ نقار خانے میں طوطی اور صحرا میں اذان جیسا معاملہ ہوتا ہے عوامی مسائل پر لکھنے کے اعتبار سے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئ اثر وثر تو ہوگا نہیں اور متعلقہ افراد ،اداروں اور محکموں کے کانوں پر کوئ جوں کبھی نہیں رینگے گی کیونکہ سب کے سب  بہت سے دیگر مشروبات ،ماکولات و اشیاءمعمولات کے ساتھ ساتھ  شیمپو بھی  توغیر ملکی استعمال کیا کرتے ہیں نا تو پھر جوں کہاں سے آئے گی ہاں کبھی کبھی سنتھیا رچی جیسے غیر ملکی پروڈکٹس نہ جانے کہاں سے نمودار ہوکر ہمارے شرفاء کی عزت اچھالنے لگتی ہیں توبہ توبہ،کتنی بری بات ہے،چلیں خیر یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے کون سی نئی بات ہے ہم اپنے مقصد پر آتے ہیں کہ یہ پیارا وطن،یہ امکانات اور وسائل سے بھرپور سرزمین ،جسکا آغاز بے سر وسامانی میں بھی اتنا شاندار تھا کہ اسے مستقبل قریب میں ایشیا اور پھر دنیا کے ہر اعتبار یعنی سیاسی،سماجی،سائنسی ،تہذیبی اور معاشی اعتبار سے بڑے ممالک کی صف میں نمایا مقام حاصل کر لینے والا ملک سمجھا جاتا تھا آج لمحہ ء موجود میں جہالت،تعصب،آمریت اور بے غیرتی کے کوڑھ کی کاشت سے کیا بنادیا گیا ہے ہم سب ہی جانتے اور اس پر کڑھتے ہیں کہ اس کے سوا کچھ کرنے کے قابل ہی کہاں رہے ہیں  ملک سے محبت کرنے والے عام لوگ، میرے اور آپ جیسے پاکستانی اور ہم عوام کو بلکل درست لغوی تفہیم میں کالاانعام بنا کر دکھا دیا گیا ہے اور اب ہمیں عوام کالانعام کہنا،لکھنا اور بولنا بلکل جائز اور روا ہے، ،

لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی عوام سے کوئ انتقام لیا جارہا ہے ایک مسلسل انتقام،،مہنگائ،بے روزگاری،میرٹ کا قتل عام مسلکی و لسانی تعصب کا فروغ ،یہ سب تو گویا دیرینہ مسائل ہیں ہی ،لیکن درمیان میں کبھی دہشت گردی،کبھی خوف و ہراس، کبھی وبائ بیماریوں اور کبھی آٹا، چینی،بجلی جیسی بنیادی مافیاز کے پھیلائے ہوئے ہیجان اور اٹھائے ہوئے طوفان عوام کو جس بری طرح رگید رہے ہیں وہ ناقابل بیان ہے کہ اس سرد مہری،بے حسی،ظلم،ستم،الم اور قانونی لوٹ مار کے لئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں،

تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پٹرول سستا ہونے پر مصنوعی قلت پیدا کرنے پر پٹرول پمپوں پر جھگڑے تو ہو ہی رہے تھے لیکن آج پنجاب کے دو شہروں میں پٹرول پمپس کو آگ لگادی گئ ہے اور اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہورہا ہے اور نا اہل صوبائ اور وفاقی حکومتیں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھی صرف تماشہ دیکھ رہی اور بیان بازی کررہی ہیں اور بڑھکیں لگائ جارہی ہیں ۔ آئ پی پیز کے اسکینڈل میں ہونے والے ہوشربا انکشافات پر خاموشی سے مٹی ڈال دی گئ ہے اور اس اسکینڈل کے انڈے بچوں میں سے سونے کی چڑیا یعنی کراچی پر مسلط کردہ ادارہ کے الیکٹرک اور قہر بن کر کراچی کے عوام پر ٹوٹا ہوا ہے،

کے الیکٹرک کے سرپرستان ،چھپے ہوئے اور ظاہری مالکان کا کھونٹا بہت مظبوط ہے،ابراج گروپ کا عالمی نادہندہ صدر عارف نقوی لندن کورٹ سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر مقدمے میں ایک کروڑ پونڈ کی ضمانت پر ہے اور یہ سب باتیں  اخبارات میں شائع شدہ ہیں ،،اس گروپ کے پاس اب صرف کے الیکٹرک ایسا ادارہ ہے جو کمائ کرکے دے رہا ہے لیکن کس طرح ؟ موجودہ ماہ کے بلز میں بیس سے تیس فیصد اضافہ کرکے بھیجنے کے ذریعے کمائ کرکے،،اوور بلنگ اور ڈرا دھمکا کر کراچی کے عوام سے پیسے نکالنے کے ذریعے سے کمائ کرکے، تیز میٹر لگا کر جو بجلی جانے پر بھی چلتے رہتے ہیں ، اب جون کے گرم مہینے میں اس ادارے کے دفاتر پر بلوں کو ٹھیک کراتے،قسطیں کراتے گرمی سے نڈھال ،بزرگ ،ضعیف،جوان، چھوٹے بڑے،خواتین شہریوں سے جو ذلت آمیز سلوک کیا جارہا ہے وہ کوئ میڈیا نہیں دکھا رہا ہے الا ماشااللہ کیونکہ سب کو اس ادارے سے ملنے والے اشتہارات بند ہوجانے کی دھمکی ملی ہوئ ہے،بس برکت کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تھوڑی سی بلکل تھوڑی سی جگہ دے دی جاتی ہے،لیکن سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی سینکڑوں ویڈیوز اور ہزاروں پوسٹس عوام کے اس دکھ اور تجلیف کو بیان کرتی نظر آرہی ہیں جو وہ اس عذاب کی طرح کراچی پر مسلط ادارے کے ہاتھوں اٹھا رہے ہیں،

خدارا اس ملک کی اشرافیہ ہوش کے ناخن لے،عوام بے بس اور مجبور ہیں کچھ کر نہیں سکتے لیکن کسی کے دل سے نکلنے والی آہ ،بد دعا اچھے اچھوں کو برباد کردیتی ہے،ویسے بھی ساری دنیا کرونا کی شکل میں ایک عذاب بھگت ہی رہی ہے اور پاکستانی اشرافیہ بھی اس کی حدت محسوس کرنا شروع ہو ہی گئ ہے ،تو وہی بات کہ ہوش میں آجائیں،جس خدمت کے وعدے کرکے حکومت میں آئے ہیں وہ خدمت عملی طور پر کریں،وگرںہ بہت برا ہوتا نظر آرہا ہے اور کچھ اس مصرعے جیسی کیفیت بنتی نظر آ رہی ہے کہ،،چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں،، اپنے اپنے کنووں سے اور بسم اللہ کے گنبدوں سے نکلیں،عوامی مشکلات کا فوری اور عملی ازالہ شروع کریں ورنہ اختیارات کے مزے یہ وردیاں،یہ پروٹوکول،یہ شان و شوکت آپ کو بچا نہیں سکے گی اگر اللہ کا امر آگیا اور عوامی غیظ و غضب کا دریا امڈ گیا،  تو پھر جائے پناہ نہیں مل سکے گی کہ یہی قانون قدرت ہے اور اسکی گواہ تاریخ انسانی ہے جس نے کبھی بھی کہیں بھی ظلم کو زیادہ عرصے پنپتے نہیں دیکھا،ہوسکتا ہے کہ اقتدار اور طاقت و اختیارات کے نشے میں اور دیگر بہت سے خماروں میں ڈوبی اشرافیہ کو یہ بات ابھی سمجھ نہ آئے کیونکہ اقتدار،اختیار اور طاقت کا نشہ سب نشوں سے بڑھ کر دنیا و مافیہا سے بیگانہ کردیا کرتا ہے اور ان کے حاملین اپنی ہی مصنوعی رنگوں،روشنیوں اور طلسمات سے بھری دنیا بسائے جیسے بسم اللہ کے گنبد میں بند ہوجاتے ہیں اور انہیں اس حصار اس دنیاء طلسمات سے باہر محروم اور مجبور،غرباء و ضعفاء کے نالے نوحے اور کراہیں سنائ نہیں دیتیں ،لیکن پھر قدرت کے نادیدہ کارکنان حرکت میں آتے ہیں اور مکافات عمل کا پہیہ گھومتا ہے تو ان صاحبان اقتدار کے عبرت ناک انجاموں کی مختلف داستانیں تاریخ کے صفحات پر رقم ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ نشان عبرت بن کر اساطیر میں محفوظ ہوجایا کرتے ہیں،ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا اور ایسا ہی اب بھی ہوگا کہ یہ قدرت کا اٹل اور ناقابل تغیر قانون ہے۔۔(خرم علی عمران)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں