تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
کراچی پریس کلب اور کراچی کینٹ کے ریلوے اسٹیشن پر بیٹھنے کیلئےا س بار اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں عموماً یا تو بیٹھتا نہیں رہا یا کم نشست ہوئی ، دورانِ سفر بھی تنہائی اور جدائی کی تلوار وار کرتی رہی ، لاہور پہنچ کر بھی یہ انزائٹی برقراررہی ۔۔ اس بار ہم سفر کوئی نہیں تھا ان کی یادیں تھیں ، پریس کلب کے گراسی لان میں میری خاتونِ جنت کے ساتھ تصویر انڈونیشیا سے کراچی آنے پر بنائی آنے والی تصویر ایک یادگار ہے ، جس کونے میں یہ تصویر بنائی تھی ، اس بار وہاں بیٹھنے کی ہمت نہ ہوئی ، لالہ ارشاد امین کےساتھ جہاں گھنٹوں بیٹھ گذرتے تھے ، ادھر کا رُخ نہیں کیا اور ریلوے اسٹیشن پر بھی ان بینچوں کا رُخ نہیں کیا جہاں ٹرین کا انتظار کرتے ٹرین کی باتیں ہوتی تھیں، اعجاز بھائی ( لیہ والے) کے پلیٹ فارم نمبر ایک کے ڈیرے پر بھی نہیں گیا بلکہ پلیٹ فارم نمبر دو پر اسی کے ڈیرے کے سامنے اسٹال کی اوٹ میں بیٹھا رہا، منگل کو لالہ کے سب سے چھوٹے بھائی بلال پہوڑ نے چاچڑاں شریف والے گھر کی ایک پرانی تصویر( سنہ دو ہزار اٹھارہ عام انتخابات سے تھوڑا پہلے ) ویٹس ایپپ پر بھیج کر یاد کروایا کہ لالے بعد باقی بھائی بھی میرے بھائی ہیں اور بھولے نہیں ، اس تصویر نے فلیش بیک میں اس گھر سے کچھ ہی فاصلے پر دریائے سندھ کے کنارے لالے کی وراثتی اراضی سے ملحقہ بے نظیر شہید پل کے نیچے پھول بہانے کا وقت یاد کروادیا ۔ مجھے ان پھول بہاﺅ لمحوں پر لکھا جانے والا ادھورا رائٹ اپ بھی یاد آیا جو میں خانپور پریس کلب کے صدر اشرف مغل کے کمپیوٹر میں ہی رہ گیا تھا ، اشرف مغل کی محبت و میزبانی نے یہ رائٹ اپ مکمل نہیں ہونے دیا تھا جس میں دریا پھول اور لالے کی زمین پر کمیونٹی سنٹر کی کچھ باتیں شامل تھیں۔
لالہ ارشاد امین ن پانچ نومبر کو اپنے دیرینہ دوستوں پورے ملتان کے صحافیوں کے چاچا اسلم جاوید اور کامریڈشکیل بلوچ کے ہاتھوں میں اپنے سب سے گہرے اور بااعتماد دوست منصور کریم کے صاحبزادے شمش کریم کے ہوٹل میں آخری سانس لی تھی ۔ ملتان لالہ ارشاد امین کی سوچ کا ہمیشہ مرکز رہا جہاں سے انہوں نے سرائیکی زبان کی پروموشن اور سرائیکوں کے ساتھ وہاں بستے والے دیگر زبانیں بولنے والوں کے جملہ حقوق اورسماجی و سیاسی ،تحریکی سرگرمیوں کا آٓغاز کیا جن کی کونپلیں درجہ چہارم میں ہی پھوٹ چکی تھیں اور انہیں جلا بخشنے و اخراجات میٹ کرنے کیلئے اخبارات و رسائل کے اسٹوڈنٹ ایجنٹ کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا تھا ان نہیں کی خودد ان کی اپنی تحریریں بھی شامل ہوتیں ، پھر والدین کے ساتھ سعودیہ چلے گئے لیکن روہی کی محبت دریائے سندھ کی ریت کی طرح اڑا کر واپس لے آئی اور انہوں نے ملتان میں ڈیرے لگالئے ۔ سرائیکی ادب ، ہفت روزہ الشمس کے بعد لاہور آگئے اور یہاں آکر سیاسی و تحریکی سرگرمیاں شروع کیں ، لاہور میں اخباری صحافت کاباقاعدہ کا آغاز روزنامہ شہاب میں نیوز ایڈیٹرکی حہیثیت سے کیا اور پھر طلوع کو طلوع کیا یہ طلوع اب شہاب میں ان کے زیر سایہ صحافت کا آغاز کرنے والے ملک شعیب بھٹہ کی ادارت و ملکیت میں اسلام آباد سے شائع ہوتا ہے ۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں انہوں نے اپنی خواہش کی تکمیل کیلئے سعودی عرب سے واپس آنے والے بھائی ضیاءعطا ءکی مالی معاونت اور اپنی پونجی سے روزنامہ سجاک کا آغاز کیا اور اس کا اجرا سول اسپتال چوک ملتان سے کیا ۔ ملتان ان کی روح میں سرائیکی سے محبت کی طرح رچا بسا تھا ، ان لمحوں پر مجھے نذر بلوچ مرحوم بھی بہت یاد آرہے ہیں مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ۔اللہ ان کی بھی درجات بلند فرمائے آمین۔
سجاک کا ذکر ہوا تو نذر بلوچ کے ساتھ ساتھ کچھ اور نام بھی یاد آرہے ہیں لیکن ان کی وعدوں کے بعدبے مروتی برتنے پر نام لکھنا غیر مناسب خیال کررہا ہوں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، ان کی کوتاہیاں انہیں یاد آتی ہونگی ۔ سجاک کا ڈیکلریشن ملتان اور لاہور کے ساتھ ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی حاصل کیا گیا تھا ۔ اس کیلئے باقاعدہ نقاش کمپنی نے خصوصی طور پر سرائیکی کی بورڈ بنایا تھا اور اس کی پہلی مبارکباد لاہور میں کامریڈ مجید اور ملتان میں نذر بلوچ اور سائیں ظہور دھریجہ نے دی تھی۔اس کے اجراءسے پہلے جن لوگوں نے تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی ان میں سابق صدر سردار فاروق لغاری ( مرحوم ) نے بھی کروائی تھی اس وعدے کی تجدید کرتے ہوئے بابا فرید گنج شکر کے مزار پر ( صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد )خود مجھے بھی کروائی تھی اور دریافت کیا تھا کہ پراجیکٹ کہاں تک پہنچا ، سرائیکی کی بورڈبننے پر مبارکباد بھی تھی ، اس پراجیکٹ میں سرائیکی کا ایک لفظ نہ جاننے کے باوجود میں گروپ ( نمائشی ہی بہتر لفظ رہے گا) چیف رپورٹر تھا۔ فاروق لغاری بھی ذکر نہ کیے جانے والے وعدہ خلافوں میں شامل رہے ، اگر کسی نے کسی لمحے پر تنہا نہیں ہونے دیا تو وہ سائیں تاج لنگاہ و سائیں اسد لنگاہ ( مرحومین ) اور سائیں منصور کریم تھے،نذر بلوچ بعد میں اسلام آباد چلے گئے اور چھوٹے بھائی ضیاءعطا ءناراض ہوکر کراچی روانہ ہوگئے اور وہیں مقیم ہیں ، یہ ناراضگی تاحال برقرار رہے اور اس کی وجہ وہی سجاک ہے جسے سرائیکی قارئین نے زندہ رکھنے کی کوشش نہ نہیں ، بہالپور اور سجاک و ملتان کا عشق لئے ارشاد امین رخصت ہوگئے۔
انتقال کے بعد لاہور پریس کلب میں تعزیتی ریفرنس ہوا جس میں بقول حیدر جاوید سید بلحاظِ جسامت دوسرے ارشاد امین اور وسیب سے آنے والوں کیلئے آسانیاں پیداکرنے کیلئے کوشاں رہنے والے صفدر بلوچ بھکر سے لاہور کا سفر نہ کرسکے نہ ہی شاہد خان جتوئی اور نذیر لغاری کی محبت سے کراچی آرتس کونسل میں ہونے والے تعزیتی ریفرنس میں شریک ہوسکے ، اس ریفرنس میں لالہ ارشاد امین کے سب سے چھوٹے بھائی بلال عطا پوڑ بھی صدمے اور دکھ کے چند الفاظ ادا کرسکے ، ارشاد امین کی بیساکھی اور بچپن سے اب تک
دکھ سکھ کے باعتماد ساتھی و کزن ( ملیر ) خورشید احمد سے بھی بات نہیں ہورہی تھی جنہوں نے اپنا سرائیکی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لالہ ارشاد مین سے منسوب کردیا ہے ۔ الفاظ سے رلا دینے ۔ تحریکیوں کو دلاسہ و تحریک دینے والے الفاظ کے دیوتا انور سن رائے سب سے زیادہ مغموم دکھائی دیے جن سے الفاظ کی ادائیگی مشکل ہورہی تھی اور ان کی اس حالت کی نمائندگی اور نذیر لغاری اہلیہ اورارشاد امین کی بہن عابدہ بتول کی سسکیوں نے کی اور محبت کی معراج کا اظہار راشد عزیز بھٹہ نے کیا جو اس ریفرنس کیلئے کراچی پہنچے لیکن ایک روز پہلے ہارٹ اٹیک کے باعث کارڈیالوجی پہنچ گئے جہاں سٹنٹ پڑنے کے باوجود جبکہ پہلے کبھی ایسا نہیں سنا دیکھا گیا کہ وہ اسپتال کے بستر سے سیدھے ریفرنس میں پہنچ گئے البتہ اس ریفرنس کے ایک مرکزی کردار شاہد جتوئی بھی ایک روز پہلے سخت علیل ہونے کے باعث آغا خان اسپتال میں مشینوں کی مدد سے سانس لے رہے تھے ۔
اس ریفرنس میں دھی رانی آنسہ نتاشا ارشاد نے بھی ٹیلی فون پر ریفرنس کے شرکاء سے اپنے والد کی تعزیت کی اور تعزیت وصول کی ۔ اس کی آڈیو ریکاڈنگ بھی مختلف گروپوں میں احباب نے شیئر کرکے محبت ارشاد کا اظہار کیا اور ساتھیوں کو آنسہ نتاشا ارشاد کا یہ پیغام سرکولیٹ کیا کہ وہ اپنے والد کے ادھورے مشن کو مکمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ، اس کی تجدید بعد میں لاہور پریس کلب میں ہونے والے دوسرے تعزیتی ریفرنس میں بھی کی گئی ، اس کا اہتمام ہفت روزہ ہم شہری نے کیا تھا ، لالہ ارشاد امین اس پراجیکٹ میں بھی شفق اللہ ڈھلوں کے ساتھ پائینی اور شفقت اللہ ڈھلوں نے بھی ہمیشہ لالہ ارشاد امین کو بڑا بھائی عملی طور پر مانا ۔ اس ریفرنس میں عابدہ بتول کی سسکیاں پروفیسر مسرت کلانچوی کے حلق سے نکل رہی تھیں ۔ جیسے عابدہ بتول کا نوحہ تھا ان کا بھائی ہمیشہ کیلئے جدائیاں دے گیا ویسے ہی پروفیسر مسرت کلانچوی کا لاہور میں میکہ ( باپ ، بھائی ) چھوڑ کر اس کا لاہور میں بہالپور ویراں کرگیا تھا ۔
آنسہ نتاشا ارشاد اپنے والد کی کمٹمنٹ آگے بڑھانے میں کیا کردار ادا کریں گے ، اس کا بہت سا انحصار خود سرائیکی وسیب اور ان کے والد کے ساتھ دوستی کا دعویٰ کرنے والی کی رہنمائی اور شفقت پر ہے لیکن خدا نہ کرے کہ جن وعدوں پر بے وفائی کا کفن ارشاد امین نے دیکھا ویسی ہی صورتحال کا وسیب کی اس دھی کوسامنا کرنا پڑے ۔خدا نہ کرے خدا نہ کرے ایگر ایسا ہوتا ہے تو دریا سندھ کے کناروں اور روحی کی زرخیز ریت اپنی تاثیر کے ساتھ اڑنا اور خوشبو پھیلانا احتجاجاً بند کردے گی اور چاچڑا ں سمیت پورے وسیب میں ارشاد امین جیسی روح رکھنے والا کوئی دوسراپیدا نہیں ہوگا ۔(محمد نواز طاہر)۔۔