sahafio ke tweets kon delete karata tha

وفاقی وزیر کو ماں کی گالیاں۔۔

تحریر: روف کلاسرا

ایک آدھ وزیر ہے جس سے دعا سلام بچی ہوئی ہے۔ اپوزیشن کے دنوں میں سیاستدانوں کے ہم ہیروز ہوتے ہیں لیکن وزیر بنتے ہی انہیں سرخاب کے پر لگ جاتے ہیں۔ کئی ایسے سیاستدان‘ جن کی عزت کرتے تھے‘ جب اقتدار ملا تو پتہ چلا کہ سب مایا ہے۔ اقتدار نے سب کو ایکسپوز کر دیا اور ہم خوش رہتے ہیں کہ تم روٹھے ہم چھوٹے۔ صحافی کا کام بڑے لوگوں کو ناراض کرنا ہوتا ہے نہ کہ خوش رکھنا ۔

خیر اس وزیر سے بڑے دنوں بعد ملاقات ہوئی‘ کہنے لگے: دو ماہ گزر گئے ہیں‘ آپ نے فون نہیں کیا ؟ میں نے کہا: مجھے آپ سے ایک کام ہوسکتا ہے اور وہ آپ کرتے نہیں تو فون کیوں کروں۔ بولے: وہ کیا ؟ میں نے کہا کہ آپ خبریں نہیں دیتے‘ سرکاری ٹھیکے تو میں نے لینے نہیں نہ ٹرانسفر پوسٹنگ کرانی ہے۔ وہ ہنس پڑے۔ میں نے کہا: سمجھدار وزیر ہمیشہ خبر دیتے رہتے ہیں۔ بولے: کیا خبر دوں‘ سب کچھ تو ٹھیک چل رہا ہے‘ہماری حکومت بہت اچھی جارہی ہے‘ چھوٹی موٹی جھڑپیں تو ہر پارٹی میں چلتی رہتی ہیں۔ایم این ایز وزیروں سے ناراض ہیں تو وزیروں کے درمیان اپنی جنگ چل رہی ہے۔ طاقتور وزیروں کا الگ گروپ ہے جووزیر اعظم کے لاڈلے ہیں۔ ان سے کمزور وفاقی وزیروں کا الگ گروپ ہے‘وہ بے چارے سارا وقت کڑھتے رہتے ہیں کہ ہم وزیر اعظم کے قریب کیوں نہیں۔ بیرونی شہریت کے حامل معاونین خصوصی اپنی زندگی میں مگن ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وزرا سپیشل اسسٹنٹس کو زیادہ لفٹ نہیں دیتے۔وہ انہیں مسائل کی وجہ سمجھتے ہیں‘ جبکہ سپیشل اسسٹنٹس سمجھتے ہیں کہ وزیروں کو کوئی کام نہیں آتا ۔ باقی سب اچھا چل رہا ہے۔ تھوڑا سا مہنگائی کا ایشو ہے‘ مگر یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ۔

میں تھوڑی دیر بعد بولا: آپ ایسے کہہ رہے ہیں جیسے مہنگائی مسئلہ ہی نہیں ہے‘ چینی‘ آٹا اور ادویات کی مہنگائی نے لوگوں کو مار ڈالا ہے۔ اسلام آباد صرف چوبیس کلومیٹر کے رقبے میں واقع ہے اور پچاس وزیر مشیر اور معاون خصوصی کام کررہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اسلام آباد میں جو کام ایک سیکشن افسر یا ڈپٹی کمشنر کا ہے اس کیلئے پورا وزیر رکھ لیا گیا ہے۔ فیڈرل حکومت کو صرف دس وزیروں کی ضرورت ہے۔ باقی سب قوم اور خزانے پر بوجھ ہیں۔ عمران خان صاحب صوبوں میں زیادہ قابل اور بہتر بندے لاتے جہاں ان کی حکومت ہے۔ انہیں زیادہ زور اپنے صوبوں میں دینا چاہیے تھا نہ کہ مرکزی حکومت میں۔ ان تمام سپیشل اسسٹنٹس کی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ضرورت تھی۔ یہ لوگ اگر وہاں تبدیلی لے آتے تو پورے ملک میں تبدیلی نظر آتی۔ دس ‘بارہ ضروری وزیروں کے علاوہ باقی کسی کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں اس لیے سارا دن ٹوئٹ کرتے رہتے ہیں اور ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ پچھلی حکومتیں کتنی کرپٹ تھیں۔وزرا صاحبان ناشتے پر ٹوئٹ ‘ لنچ پر پریس کانفرنس اور ڈنر پر ٹی وی شو کرتے ہیں۔ یہ ہے ان کی سارے دن کی مصروفیت۔ لوگ اب اُکتا چکے ہیں۔ اس حکومت نے میڈیا کے ساتھ تعلقات آتے ہی اتنے خراب کر لیے کہ اب میڈیا کے پاس اپنی جان بچانے کا ایک ہی حل تھا کہ وہ اپوزیشن کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرے تاکہ خان صاحب کو وہ اپنی طرف مصروف کریں اور وہ درمیان میں بچے رہیں۔اب اپوزیشن تگڑی ہوگئی ہے کیونکہ حکومت ہر محاذ پر شکست کھارہی ہے۔ عوام کو ایک ہی بات بار بار سنائی جارہی ہے کہ سب کیا دھرا پچھلوں کا ہے‘ لہٰذا حکومت نے پہلے دن سے ہی کندھوں پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کیا ۔ مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے اور حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ذرائع کے مطابق دو ہفتے قبل کابینہ اجلاس میں اسد عمر نے چینی اور گندم کی قیمتیں بڑھنے پر شدید احتجاج کیا تھا۔ ایک ٹی وی شو میں اسد عمر سے میں نے کہا کہ عجیب بات ہے‘ آپ کابینہ اجلاس میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں مگر جب آپ وزیرخزانہ تھے تو آپ نے ہی گیارہ لاکھ ٹن چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی تھی اور پنجاب نے تین ارب روپے سبسڈی بھی دی۔ اب وہی چینی مہنگے داموں باہر منگوا رہے ہیں ۔ اسی طرح گندم کے کیس میں ہوا‘ مگر آپ کابینہ میں احتجاج بھی کررہے ہیں۔

میں نے اپنے اس وزیر دوست کو کہا کہ ابھی پچھلے کابینہ اجلاس میں انکشاف ہوا کہ وزیراعظم سمیت سب وزیروں کو غلط اعدادوشمار دے کر غلط فیصلے کرائے گئے‘ جس سے چینی اور گندم کا بحران پیدا ہوا اور مہنگائی آسمان تک پہنچ گئی۔ شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ چینی ایک روپیہ فی کلو بڑھنے سے پانچ ارب روپے عوام کی جیب سے نکل جاتے ہیں‘ مگر پچھلے ایک سال میں چینی کی قیمت پچپن روپے سے ایک سو پانچ روپے تک پہنچ گئی۔ شہزاد اکبر کا فارمولا اپلائی کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ڈھائی سو ارب روپے تو عوام کی جیب سے ایک سال میں صرف چینی کی مد میں نکل گئے ہیں۔ اب ایک ارب ڈالرز کے قریب چینی باہر سے منگوائی جارہی ہے‘ اس پر ایک سو ساٹھ ارب روپے خرچ ہوں گے۔ دنیا بھر سے ڈالرز مانگے تھے اور اس کے بدلے وہ چینی منگوا رہے ہیں جو ہمارے پاس وافر پڑی تھی۔ یہ صرف ایک غلط فیصلے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس قوم کو رزاق دائود‘ اسد عمر‘ وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کا فیصلہ بہت مہنگا پڑا ہے۔

گندم کی سن لیں۔ پہلے شہباز شریف دور میں گندم کا سیزن شروع ہوتے ہی وہ پنجاب کی سرحد بند کردیتے تھے اور صرف سرکاری طور پر گندم صوبے سے باہر جاسکتی تھی۔ اس دفعہ چونکہ پنجاب اور کے پی کے میں حکومت پی ٹی آئی کی تھی لہٰذا سرحد بند نہیں ہوئی اور سمگلروں نے آرام سے گندم قریبی ملکوں کو سمگل کر دی۔ ملک میں گندم کم ہوگئی لیکن خیبر پختونخوا کے سوداگروں کی چاندی ہوگئی۔ اس سمگل شدہ گندم کی کمی پوری کرنے کیلئے بیس لاکھ ٹن گندم باہر سے مہنگی خریدی جارہی ہے۔ یوں ایک اور فیصلہ ہمیں دو تین ارب ڈالرز میں پڑنے والا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جن سے کوئی بھی غلط اعدادوشمار دے کر غلط فیصلہ کرالیتا ہے اور عوام کی جیب سے ایک ہزار ارب روپے نکل جاتے ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔کیا وزیراعظم نے کسی کے خلاف ایکشن لیا کہ تم لوگوں نے کہا تھا کہ چینی اور گندم وافر ہے اور مجھ سے فیصلہ کرالیا کہ باہر بھیج دو؟اب کہاں ہے چینی اور گندم؟ جب سب وزیروں اور بابوؤں کو علم ہے کہ وزیراعظم نے کارروائی نہیں کرنی تو پھر یہی کچھ ہوگا جو ہورہا ہے۔ ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور آپ پھر بھی کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوا‘ سب ٹھیک چل رہا ہے۔

وزیر صاحب کافی دیر تک میرا بھاشن سن کر کچھ متاثر ہوچکے تھے‘ بولے: ایک بات بتائوں اگر کسی کو نہ بتائو‘ میں نے کہا ارشاد : بولے: خود میری اماں بھی ہماری حکومت کے خلاف ہوچکی ہیں۔ میں جب بھی اماں کو فون کرتا ہوں تو وہ برا بھلا کہنا شروع کردیتی ہیں۔ میں نے حیرانی سے کہا: واقعی؟ وہ بولے: جی ہاں ‘ مگراماں کی شکایت کچھ اور ہے۔ اماں کا کہنا ہے کہ لاہور اچھا خاصا خوبصورت تھا ‘ صاف ستھرا اورسرسبز ‘ روز صفائی ہوجاتی تھی‘ مگراب لاہور کی حالت بہت بری ہوچکی ہے کیونکہ خان صاحب کے لاڈلے وزیراعلیٰ کو نہ دلچسپی ہے اور نہ ہی انہیں کوئی سیریس لیتا ہے۔ وہ وزیر بولے: اماں کہتی ہیں‘ تمہاری حکومت نے ہمارے لاہور کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ کہنے لگے: اب میں ڈر کے مارے اماں کو فون نہیں کرتا کہ گالیاں کھانا پڑتی ہیں‘ کوئی اماں کی گالیاں ٹیپ کر کے وزیراعظم کو ہی نہ پیش کردے اور میری چھٹی ہوجائے۔ کل فون کیا تو اماں برا بھلا کہنا شروع ہی ہوئی تھیں کہ میں چلاّ اُٹھا: اماں بس بس۔ اماں نہ رکیں تو میں نے فوراً یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ اماں بس دعا کریں۔(بشکریہ دنیا)

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں