wafaq soobon ki larai se selab ki aafat ayi

وفاق صوبوں کی لڑائی سے سیلاب کی آفت آئی، عامر متین۔۔

صحافی عامر متین کا کہنا ہے کہ اگر دریائے سندھ کا پانی بروقت لنک کنال کے ذریعے جہلم اور چناب میں منتقل کردیا جاتا تو ملک بھر میں سیلاب سے ایک ہزار کے قریب ہونے والی ہلاکتوں کو روکا جاسکتا تھا، لیکن یہ اس لیے نہیں ہوسکا کیونکہ وفاق اور صوبوں میں پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ موجود ہے۔ عامر متین کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے ایک ہزار سے زیادہ ہلاکتوں اور کروڑوں افراد کو بے گھر ہونے سے بچایا جا سکتا تھا اگر وفاق صوبوں سے لڑائی بند کر کے دریائے سندھ کا سیلابی پانی لنک کنال کے ذریعے جہلم،چناب میں صحیح وقت پر منتقل کر دیتا۔ ایسا کیوں نہ ہو سکا اور اب بھی نہیں ہو رہا؟کیا یہ سیلاب صرف خدائی آفت تھا یا اس کی کافی تباہی بچائی جا سکتی تھی؟ یہ ممکن تھا اور اب بھی ہے،  مگر ایسا ہو نہ سکا کیونکہ  وفاق اور صوبوں کی لڑائی کی وجہ سے بروقت فیصلے نہ ہو سکے۔عامر متین کے مطابق بروقت فیصلے اس لیے نہیں ہوسکے اور دریائے سندھ کے سیلاب کا پانی اس لیے جہلم، چناب اور بقیہ آبی ذخیروں میں بروقت نہیں چھوڑا جاسکا  کیونکہ اس نظام کو ارسا اور فلڈ کمیشن چلاتے ہیں۔یہ نظام وفاق اور صوبوں کے مابین آبی معاہدوں پر مبنی ہے کہ کس صوبے کو کس وقت کس جگہ سے کتنا پانے ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے پتھر پر لکھی لکیر نہیں ہیں جو تبدیل نہیں ہو سکتی۔ خاص طور پر جب کروڑوں انسانوں کی جان اور مال کا مسلئہ ہو۔ وفاق اور صوبے بڑی آسانی سے گنجائش نکال سکتے تھے اور اب بھی ایسا کرسکتے  ہیں کیونکہ  مسئلہ  ملک اور شائد خطے کی تاریخ میں سب سے بڑی آفت سے نبٹنے کا ہے۔عامر متین کا کہنا تھا کہ بڑی آسانی سے یہ فیصلہ ہو سکتا تھا کہ وقتی طور پر صوبے اپنے پانی کے حصے کی مانگ نہیں کریں گے  جس کے بعد  سندھ کے سیلاب کے پانی کو بر وقت چھوٹے دریاؤں اور آبی ذخیروں میں منتقل کیا جا سکتا تھا۔ صوبہ سندھ کو کیا اعتراض ہونا تھا جب ان کی جان، مال مویشی اور فصلیں بچ رہی تھیں؟ خاص طور پر جب وفاق اور سندھ میں ایک ہی سیاسی الائنس کی حکومت ہے۔ پنجاب کے  جنوبی حصے بھی سیلاب سے بچ جاتے،  مگر ایسا ہو نہ سکا۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں