تحریر: سید بدرسعید
ہلاکت خیز بیماری کی وبا پھیلنے کے بعد بستی خداداد کا جوآخری شخص مرا وہ کسی وبا کا شکار نہیں ہوا تھا۔ چند ماہ قبل تک یہ ایسی ہی بستی تھی جیسی قصے کہانیوں میں ملتی ہے۔ سادہ سے لوگ اپنے اپنے کاروبار زندگی میں مگن تھی۔ لوگ بہت امیر نہیں تھے لیکن بھیک منگوں میں بھی شمار نہیں کیے جاتے تھے۔ یہ درست ہے کہ بستی خداداد کا نظام قرض کی بدولت چل رہا تھا اور بستی کا سربراہ ہر سال کسی نہ کسی بہانے ارد گرد کی ریاستوں سے سود پر بھاری قرض لیا کرتا تھا۔ ہر سال ملنے والے قرض میں سے ہی پچھلے قرض کے سود کی رقم ادا کر کے باقی پیسوں سے بستی کا نظام چلایا جاتا تھا۔ یوں رفتہ رفتہ قرض کی رقم بڑھتی چلی جا رہی تھی اور ہر سال پہلے کی نسبت زیادہ قرض لیا جانے لگا تھا۔ بستی میں اکا دکا چور بھی تھے، کبھی کبھار قتل اور راہزنی کی واردات بھی ہو جاتی تھی۔ ارد گرد کی شر پسند ریاستوں کے مکھیاکبھی کبھار بستی خداداد کے کسی مقامی گروہ کو اناج کی بوری بھجوا کر خواتین کے حقوق کی ایسی تنظیم بھی کھڑی کروا دیتے تھے جن کی بدولت بستی کی خواتین کے اصل حقوق کا معاملہ دب جاتا اور ایک لایعنی سی بحث شروع ہو جاتی لیکن یہ سب وقتی تھا۔ چند ہفتوں کے لئے شور اٹھتا، جلسے جلوس نکلتے، لڑائی جھگڑے ہوتے اور پھر گرد بیٹھ جاتی تو سبھی پہلے کی طرح ایک ہی کھیت سے آلو چنتے نظر آتے۔ بستی میں نمبردار بننے کی لڑائی جاری رہتی تھی لیکن نمبردار بننے کے سبھی امیدوار اپنی زمینوں پر ہل چلانے کے لئے ایک ہی ٹریکٹر استعمال کرتے تھے اور اپنے بچوں کے ختنہ کی تقریب میں بھی بستی کے دیگر رہائشیوں کی بجائے ایک دوسرے کو ہی بلاتے اور جشن مناتے تھے۔ ان کے دکھ سکھ سانجھے تھے لیکن نمبرداری کی جنگ اپنی اپنی تھی۔ انہوں نے اپنی اپنی پبلسٹی کے لئے اپنے اپنے مراثی رکھ چھوڑے تھے جو مخالف چودھری کے مراثی پرجملے کستے اور کبھی کبھار دست و گریبان بھی ہو جاتے۔ چودھری البتہ حقہ کی نال پکڑے یہ تماشہ دیکھتے اور ایک دوسرے کو شرارت سے آنکھ مارتے۔ ان کے بچے اکٹھے پڑھتے اور کھیلتے تھے۔
یہ اسی بستی خدادا کی کہانی ہے ایک گھبرو بیرون ملک سے آیا تو سارے محلے میں شور مچ گیا۔ لوگ ولایت سے آئے محنت کش کو دیکھنے اکٹھے ہو گئے۔ اس نے سب کو خوش کرنے کے لئے قسم قسم کے تحائف کھولنے شروع کر دیئے۔ اسی دوران جانے کب ایک ایسی پوٹلی بھی کسی نے کھول دی جس میں وائرس رکھا ہوا تھا۔ یہ وائرس بھی کسی تحفے کے ساتھ تقسیم ہو گیا اور لینے والا خوشی خوشی اسے کاندھے پر لادے اپنے گھر لے گیا۔ اس کی بیوی اور بچوں نے حتی الامکان اس وائرس کی خدمت کی اور دنوں میں اسے جوان کر دیا۔ یہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہوئی۔ بستی خدادا کے باسی ایک ایک کر کے مرنے لگے، نمبردار نے پہلے تو اسے معمول کی اموات تصور کیا لیکن جب اس کا اپنا بھائی بھی ایک روز کچی گاجر کھاتے کھاتے اچانک زمین پر گر کر دم توڑ گیا تو اس نے فورا بستی کے چودھریوں کو اکٹھا کر لیا۔ اس روز انہیں اندازہ ہوا کہ یہ وبا محنت کشوں کی نہیں بلکہ چودھریوں کی ہے اور اس سے سارے چودھری ایک ایک کر کے مر سکتے ہیں۔ اس انکشاف کے ساتھ ہی بستی خدادا د میں ہنگامی حالات نافذ کر دیئے گئے اور نمبردار نے سب کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔ وبا نے بستی کے کئی گھروں کا دروازہ دیکھ لیا تھا۔ ایک ایک کر کے لوگ مرنے لگے، ایک نمبردار مر ا تو دوسرا اس کی جگہ آ گیا لیکن وبا نے اسے بھی نمبردار تسلیم نہ کیا۔ لوگ چیخنے چلانے لگے، کچھ لوگ بھوک سے مر گئے، کچھ وبا سے مرے اور کچھ کو نمبردار نے گھر سے باہر قدم رکھنے کی پاداش میں قتل کر دیا۔ بہرحال ایک ایک کر کے سبھی مرتے چلے گئے۔ وبا اور موت کے خوف سے لوگوں نے مرنے والوں کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا، کوئی ان کی میت کو کاندھا نہ دیتا تھا اور قبر میں اتارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، میونسپل کمیٹی والے ان مردوں کو بستی کے ایک کونے میں موجود قبرستان میں کھدے بڑے سے گڑھے میں پھینک آتے تھے۔ پھر ایک دن معلوم ہوا کہ وبا کا شکار ہونے والوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر بھی ایک ایک کر کے اسی وبا کا شکار ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹروں نے ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن وہ اپنا فرض ادا کرتے کرتے اپنی اپنی باری پر مرتے گئے۔ وبا نے کسی کا لحاظ نہ رکھا، فرقہ واریت کی جنگ لڑتے شعلہ بیاں ملا بھی اس کا شکار ہوئے اور راموں کنجر بھی اسی کے ہاتھوں مرا۔ آفت جہاں طوائف اپنی تمام تر شوخیوں کے باوجود اس وبا کا دل موم نہ کر سکی اور اور جرات خان اپنی تمام تر جنگی صفات کے باوجود وبا سے شکست کھا گیا۔ گھروں میں مقید خاندانوں کے آخری فرد بھی اس حال میں مرے کہ لاش گلنے سڑنے کی بدبو بھی کسی کو ان کی جانب متوجہ نہ کر سکی۔ پوری بستی میں لاشوں کا تعفن پھیل گیا۔ایک گلی میں نمبردار اور رامو کنجر کی لاشیں ایک دوسرے پرپڑی تھیں تو جناز گاہ کے باہر مولوی چشم دید اور آفت جہاں کی لاشیں ایک ہی درخت تلے گل رہی تھیں۔ بستی خدادا کا ہر فرد مر چکا تھا اور گلیاں ویران ہو چکی تھیں۔ گھروں کی کھڑیاں پردہ نشینوں کی ٹوہ سے محروم ہو چکی تھیں۔ موت کے دامن میں محمود و ایاز دونوں کو ایک ساتھ جگہ ملی تھی۔ صاف نظر آتا تھا کہ پوری بستی میں ایک بھی انسان نہیں بچا لیکن یہ سچ نہ تھا۔
بستی خدادا د کاایک شخص ابھی بھی زندہ تھا،ایک ایسا شخص جو وبا کی آمد کے ساتھ ہی مر گیا تھا۔ بستی کے لوگوں نے چند روز پنڈال میں اکٹھے ہو کر اس کا ذکر کیا اور پھر ایسا بھولے کہ وبا کو بھی اس کی بھنک نہ پڑ سکی۔ یہ بستی کا سب سے ذہن انسان تھا جو وبا کی پوٹلی کھلتے ہی اسے پہچان گیا تھا۔ اس نے دو ماہ کا راشن اپنے گھر رکھا اور پھر دروازہ اندر سے بند کر لیا۔مستقل بند کواڑوں کے پیچھے چھپنے والے مردوں ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ بھی بروقت مر گیا تھا تاکہ زیادہ زندگی پا سکے۔دو ماہ تک اس نے بستی میں کسی سے رابطہ نہ رکھا۔ ایک مٹیار ہر روز اس کے دروازے سے لگ کر گیت گاتی اور کواڑ کھٹکھٹاتی لیکن زندگی کی تلاش میں نکلے دانشور کو اب محبت کے گیت اسرافیل کا صور محسوس ہوتے تھے۔ اس مٹیار کی لاش اس کے دروازے کے باہر اب بھی پڑی تھی جس کا خوبصورت چہرہ چند کیڑے کھا چکے تھے اور ہڈیوں کو چھپاتے گوشت کے ابھار کتے نوچ چکے تھے۔ اب محبت کی علامت کے طور پر دروازے سے لگا ایک ایسا ڈھانچہ ہی باقی تھا جسے ایک نظر دیکھ کر اس کی جنس کا تعین ممکن نہ تھا۔ شاید موت جنس کی کشش کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ دانشور دو ماہ سے گھر میں نفلی اعتکاف کی نیت کیے ہوئے وبا کے جانے کا منتظر تھا۔ دو ماہ کا راشن اسے دنیا سے بے نیاز رکھنے کے لئے کافی تھا۔ دو ماہ گزارنے کے بعد دانشور نے گھر سے قدم باہر نکالا تو بستی خداداد ایک بھیانک قبرستان میں بدل چکی تھی۔ اس نے رب کا شکر ادا کیا کہ اس کی ذہانت اس کی زندگی بچانے کی وجہ بن گئی ورنہ وہ بھی بستی کے بے عقل،لاپرواہ اور بے فکرے لوگوں کی طرح وبا کا شکار ہو کر مر چکا ہوتا۔ بستی والوں نے جب تک وبا کی سنگینی کو محسوس کیا تب تک دیر ہو چکی تھی۔ وہ وبا کے ساتھ ہی گھروں میں مقید ہو کر اس کے جانے کی دعا کرتے رہے اور وبا ایک ایک کر کے سبھی کو چاٹ گئی۔ دانشور گھر سے نکلا تو زندگی کے احساس کو پا کر خوش تھا، پوری بستی اب اس کی ملکیت تھی، گھروں میں وافر اناج موجود تھا، سونے، رہنے اور کھانے کے لئے بستی کے امراء کے محلات اس کے منتظر تھے۔ اب اس پر نہ تو بستی کا کوئی قانون لاگو ہوتا تھا اور نہ ہی کسی قسم کی روک ٹوک تھی۔ یہ بستی اب اس کی ذاتی ملکیت تھی کیونکہ ملکیت کا کوئی دوسرا دعوے دار باقی نہ بچا تھا۔ وہ چند روز وہ بلاوجہ ہی بستی میں گھومتا رہا، اس نے آفت جہاں کی مسہری پر رات گزاری، چودھری کے گھر کا کھانا کھایا اور نمبردار کی بندوق اٹھا کر ہوا میں فائر کیا۔ اس کے بعد اسے وحشت ہونے لگی۔ وہ گلیوں میں اپنے آپ کو آوازیں دینے لگا، گھنٹوں بیٹھ کر خود سے باتیں کرنے لگا، اس نے اپنے آپ کو دھتکارا، طعنے دیئے اور ایک بار اپنے ہی چہرے کو تھپڑ مار کر لال بھی کر لیا۔ اس نے اپنے آپ کو زندہ بچ جانے پر شاباش دی اور نہ مرنے پر لعن طعن بھی کی۔ وہ بستی کا واحد مقرراور واحد سامع تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ اپنی آواز سے اکتا گیا۔ اس نے گھنٹووں خاموش رہ کر دیکھ لیا لیکن یہ خاموشی بھی دل پر آری کی طرح چلنے لگی تھی۔ بستی خداداد اس کی ملکیت بن چکی تھی لیکن اس ملکیت کے دعوی کو تسلیم کرنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ بستی کا سب سے ذہین انسان تھا جو اپنی ذہانت کی بدولت زندہ تھا لیکن اس کی اس ذہانت اور قابلیت کا اعتراف کرنے کے لئے وہاں کوئی نہ تھا۔ سراہے جانے کی ہوس اسے مارے جاتی تھی۔ وہ کسی سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن پوری بستی میں اس جیسا دانشور کوئی نہ تھا جو زندہ بچ کر آج اس کا شریک گفتگو بنتا۔ ایک روز بستی خداداد کے اس اکلوتے خود ساختہ مالک کی لاش بھی چوراہے میں پڑی تھی۔
کئی سو سال اسی طرح گزر گئے پھر ایک روزچند لوگوں بستی خدادا د کا ملبہ اٹھانے آ گئے۔ یہ آثار قدیمہ کے ماہر تھے، انہوں نے مردوں کی باقیات اکٹھی کیں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ سیکڑوں برس قبل بستی خداداد کے تمام لوگ ایک جان لیوا وبا کا شکار ہو کر مر گئے تھے۔ بستی خداداد نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی تھی۔ سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کی ٹیمیں یہاں تحقیق اور مطالعاتی دورے پر آنے لگی۔ آہستہ آہستہ ایک بار پھر لوگوں کی توجہ بٹنے لگی۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے اپنی ایک رائے قائم کر لی تھی۔ چند برس یونہی گزر گئے پھر ہڈیوں کے ایک ماہر نے یہاں کا چکر لگایا اور چند ماہ بعد اپنے تفصیلی مقالے میں لکھا: ہلاکت خیز بیماری کی وبا پھیلنے کے بعد بستی خداداد کا جوآخری شخص مرا، وہ کسی وبا کا شکار نہیں ہوا تھا۔ اسے زندہ رہنے کی اذیت نے مار ڈالا تھا۔(سید بدرسعید)۔۔
(سید بدر سعید کا موجودہ حالات کے تناظر میں ایک خوبصورت افسانہ……جس کے ادبی اور فنی محاسن کو اردو ادب کے کلاسک افسانوں کے مقابل پرکھا جا سکتا ہے۔۔۔معروف مصنف کے ایم خالد کا تبصرہ)۔۔