voice of america ke bartaraf senkaro sahaafio ne adalat se ruju karlia

وائس آف امریکا کےبرطرف سینکڑوں صحافیوں نے عدالت سے رجوع کرلیا۔۔

کئی دہائیوں سے وائس آف امریکا (وی او اے) اور اس سے وابستہ میڈیا اداروں کے لیے کام کرنے والے صحافی اپنی ملازمتوں کو صنعت میں سب سے زیادہ محفوظ اور اچھی تنخواہوں والے اداروں میں شمار کرتے رہے ہیں۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس ماہ صورتحال اس وقت بدل گئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا (یو ایس اے جی ایم) کو ختم کرنے، وائس آف امریکا، ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی (آر ایف ای/آر ایل) اور ریڈیو فری ایشیا (آر ایف اے) کو مؤثر طریقے سے بند کرنے کا حکم دیا۔امریکی ایجنسی فار گلوبل میڈیا کے نئے سینئر ایڈوائزر کری لیک آر ایف ای/آر ایل کے لیے فنڈنگ ختم کرنے کا حکم منسوخ کرنے کے عدالتی حکم سے خوش ہوکر اب بھی اپنے آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔وائس آف امریکا کے سیکڑوں سابق صحافیوں نے واشنگٹن اور نیو یارک میں مقدمات دائر کر کے اپنی برطرفی کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، درخواست گزاروں میں وائس آف امریکا کے ڈائریکٹر مائیکل ابراموٹز، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) جیسے میڈیا ایڈووکیسی گروپس اور مزدور تنظیمیں شامل ہیں۔چند روز قبل ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج رائس لیمبرتھ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ یو ایس اے جی ایم آر ایف ای/آر ایل کو بغیر کسی وضاحت کے بند کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی، چاہے صدر کی ہدایت ہی کیوں نہ ہو۔وائس آف امریکا کی اردو اور پشتو سروسز سے تعلق رکھنے والے 100 سے زائد پاکستانیوں سمیت نئے بے روزگار صحافیوں کے ایک گروپ نے حال ہی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنی ملازمتوں کی بحالی اور نئے آپشنز تلاش کرنے کے اپنے منصوبوں کے بارے میں بتایا۔انہوں نے تسلیم کیا کہ صحافیوں کے لیے ملازمتوں کی مارکیٹ تیزی سے خراب ہوتی جا رہی ہے، وائس آف امریکا کے ایک سابق رپورٹر نے پریشان کن رجحانات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ’واشنگٹن پوسٹ نے 2024 میں 10 کروڑ ڈالر کھونے کے بعد اپنی 4 فیصد افرادی قوت کو فارغ کر دیا تھا، اور ووکس میڈیا، ہف پوسٹ جیسے دیگر اداروں نے بھی کٹوتی کی، صرف 2024 میں میڈیا کی تقریباً 15 ہزار نوکریاں ختم ہوئیں۔امریکی ادارہ برائے محنت شماریات کے مطابق 2023 سے 2033 تک صحافیوں کی ملازمتوں میں 3 فیصد کمی متوقع ہے، جب کہ روایتی میڈیا سکڑ رہا ہے، ڈیجیٹل پلیٹ فارم پھیل رہے ہیں، انٹرنیٹ پبلشنگ اور براڈکاسٹنگ میں روزگار 1990 میں 30 ہزار سے بڑھ کر 2016 میں تقریباً ایک لاکھ 98 ہزار ہوگیا۔ان چیلنجز کے باوجود کچھ صحافی پرامید ہیں، ایک صحافی کا کہنا تھا کہ ’نیو یارک ٹائمز نے دی ایتھلیٹک اینڈ ورڈل کو حاصل کرکے کامیابی کے ساتھ توسیع کی، مواقع بہت کم ہیں، لیکن موجود ہیں۔میڈیا کے حامیوں نے متنبہ کیا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے پریس کی آزادی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، وائس آف امریکا اور اس سے وابستہ تنظیمیں 100 سے زائد ممالک میں 63 زبانوں میں 42 کروڑ افراد تک پہنچتی ہیں، اور ان کی بندش سے امریکی عوامی سفارت کاری کے ساتھ ساتھ اس کی سافٹ پاور کو بھی نقصان پہنچے گا۔لیکن وائس آف امریکا کے بہت سے صحافیوں کے لیے مالی استحکام حاصل کرنے سے کہیں زیادہ خطرہ ہے، وہ اپنے آبائی ممالک واپس جانے سے ڈرتے ہیں، جہاں امریکی حمایت یافتہ میڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں