views game ka jhoot ya ishtehar ka sach

ویوز گیم کا جھوٹ  یا اشتہار کا سچ۔۔

تحریر:سید بدر سعید

پنجاب حکومت کی جانب سے اخبارات کے پہلے صفحہ کا “خبری اشتہار” سوشل میڈیا کے دانشوروں کی “بیٹھک” کا موضوع سخن رہا ۔ حکومت کی مخالف جماعت کے حامیوں نے اس پر شدید تنقید کی ۔ پنجاب حکومت نے اپنا ایک سال مکمل ہونے پر اپنی کارکردگی کا اشتہار شائع کیا جس کے لیے اخبارات کا پہلے صفحہ بطور اشتہار بک کروایا گیا تھا ۔ یہ اشتہار خبروں کی شکل میں تھا اور پہلی نظر میں اشتہار کی بجائے خبر ہی معلوم ہوتا تھا ۔ ہمارے بہت سے صحافی دوستوں نے بھی اس پر تنقید کی اور اسے اخباری ضابطہ اخلاق کے خلاف قرار دیا ۔

حکومتوں کے لیے پہلا سال انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے  ۔ ماضی میں ایسے سربراہان بھی گزرے ہیں جنہوں نے صحافیوں سے باقاعدہ وقت لیا کہ پہلے سو دن یا ایک سال تک  ان پر تنقید نہ کی جائے تاکہ وہ اپنی کارکردگی دکھا سکیں ۔ عموما حکومت کا پہلا سال ”  ہنی مون ” سمجھا جاتا ہے  اور ایک سال بعد تنقید تیز ہو جاتی ہے ۔ موجودہ حکومت کو یہ ہنی مون پریڈ نہیں مل سکا اور پہلے ہی دن سے شدید تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ۔ ان حالات میں وزیراعلی پنجاب کے لیے پہلے سال  کی کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھنا مزید اہمیت کا حامل تھا۔

میں ذاتی طور پر خبر اور اشتہار کے درمیان واضح فرق کا قائل ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اخبار کے قاری کو خبر اور اشتہار میں فرق معلوم ہونا چاہیے لیکن ماضی میں اخبارات یہ دونوں روایات قائم کر چکے ہیں ۔ پراپرٹی کے اشتہارات کو خبر کے انداز میں شائع کرنے کی روایت پاکستان کے سب سے بڑے اخبار میں موجود ہے ، اسی طرح پورے صفحہ کا اشتہار بھی اخباری روایات میں شامل ہے ۔  اس لیے موجودہ حکومت کی جانب سے خبر کی شکل میں اشتہار کی اشاعت نہ تو رائج اشتہاری پالیسیز کی خلاف ورزی ہے اور نہ ہی کوئی نیا تجربہ ہے۔

حکومت نے پرانی دو روایات کو ہی یکجا کرتے ہوئے اخباری خبروں پر مشتمل مکمل صفحہ کا اشتہار چھپوایا  ۔ یہ خبریں پہلے اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں ۔ پچھلی حکومت نے بھی اپنی کارکردگی کو اخباری خبریں یکجا کر کے ہی شائع کروایا تھا لیکن اس وقت پہلے صفحہ پر “ہم مصروف تھے ” کے تین الفاظ کے ساتھ ایک اشتہار چھاپا گیا اور اگلے صفحہ پر اخباری خبروں کو یکجا کر کے اپنی کارکردگی بتائی گئی تھی ۔ البتہ وہ اشتہار ہی معلوم ہوتا تھا  ۔دونوں کے تقابل سے یہ تو واضح ہوا کہ حکومت اپنی کارکردگی  میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے رکھتی ہے جو کہ درست ہے ۔ حکومتوں کو جواب دہ ہونا بھی چاہیے

اگر ہم اخباری صنعت کی بات کریں تو اخباری ذمہ داران  کا موقف  بھی درست ہے۔اشتہارات کے لیے ادارے اخبارات میں اپنی جگہ بک کرواتے ہیں ۔اس جگہ پر شائع ہونے والے  اشتہار کا ڈیزائن اور اس کا تعین اشتہار ساز کمپنی کرتی ہے ۔ادارے کے پاس البتہ یہ حق محفوظ ہوتا ہے کہ اپنی پالیسی کے خلاف نظر آنے والا اشتہار روک دے ۔یہ ادارے کا نقصان ہے لیکن مالکان ایسے فیصلے کرتے رہے ہیں ۔ اردو ڈائجسٹ کے مالک الطاف قریشی نے سگریٹ کے اشتہارات پر خود ساختہ پابندی لگا کر مالی نقصان برداشت کیا تھا ۔ کئی اور اداروں نے بھی ایسے نقصانات برداشت کیے تھے ۔

میڈیا سے وابستہ افراد جانتے ہیں کہ اشتہار کی اہمیت کیا ہے ۔ کسی اشتہار کو روکنے کا فیصلہ انتہائی مشکل ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اخبارات و ٹی وی چینلز کا ذریعہ معاش اشتہارات ہی ہیں ۔ میڈیا اپنے اخراجات اور ورکرز کی تنخواہوں کو اشتہارات کی مد سے ہونے والی آمدن سے ہی پورا کرتا ہے ورنہ اخبار کی قیمت اور اشاعت کے اخراجات میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔اخبارات موجودہ قیمت کے ساتھ اپنی سیل کی بنیاد پر تو پرنٹنگ کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے ۔ جہاں شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی کی قیمت پانچ روپے سے زیادہ ہو وہاں  فل سائز اخبار کی پرنٹنگ اور قیمت کا تقابل ہی اصل صورت حال واضح کر دیتا ہے ۔ بدقسمتی سے اخباری صنعت شدید زوال کا شکار ہے ۔ پہلے عوام کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ اشتہار کی اہمیت کیا ہے لیکن جب سے سوشل میڈیا آیا اور ہر یوٹیوبر اور ٹک ٹاکر ہی بذعم خود  “صحافی” بن گیا تب سے یہ بات بھی سامنے آ گئی کہ اخبارات کے مالکان ، ایڈیٹرز اور کارکن کس صبر سے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ویوز اور اشتہارات کے لالچ میں عام یوٹوبرز نے “فیملی وی لاگ” کے نام پر شرم و حیا کی دھجیاں اڑا دیں ۔اسی ملک میں  اپنی اور اپنی شریک حیات کی برھنہ ویڈیوز جاری کر کے “ریٹنگ” اور “ویوز” یعنی اشتہار کی زیادہ آمدن لینے کا سلسلہ چل نکلا ۔  جہاں سوشل میڈیا اشتہار (ویوز) کے لیے ہر قسم کی اخلاقیات اور غیرت کا جنازہ اٹھا دیا گیا وہیں آج بھی اخباری کارکن فاقے کر کے اخلاقیات کا بھرم رکھے ہوئے ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جو میڈیا (سوشل میڈیا ) عوام کے ہاتھ میں ہے کیا وہاں صحافت کے نام پر  جھوٹے وی لاگ ، بے بنیاد تھمب نیل ، سو فیصد جھوٹے مگر چونکا دینے والے کیپشن ، برھنہ ویڈیوز ، جسم کی نمائش اور فیملی وی لاگ کے نام پر فحاشی نہیں پھیلائی جا رہی ؟ یہ سب ویوز ریٹنگ یعنی اشتہاری کمائی کے لیے کیا جا رہا ہے ۔ کیا ہم لگ بھگ دو سال سے ایسے تھمب نیل اور وی لاگ نہیں دیکھ رہے جن کے مطابق بڑی شخصیات اڈیالہ میں قید ایک سیاست دان سے رات کو ملاقات کرتی ہیں اور ایک ہفتے میں وہ شخصیت رہا ہونے والی ہوتی ہے ۔ دو سال میں ایسے کتنے وی لاگ جھوٹے ثابت ہوئے ؟ انہی وی لاگ کو پسند کرنے بلکہ ان پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والوں کو ایک کارکردگی  اشتہار پر اعتراض ہو تو اس کی وجہ اخلاقیات سے زیادہ سیاسی وابستگی  ہوتا ہے ۔ سوشل میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ لیکن تقابل کیا جائے تو سوشل میڈیا ابھی تک فیک نیوز کے ٹھپے سے باہر نہیں نکل سکا جبکہ اخبارات آج بھی تصدیق اور کاونٹر چیک کے ساتھ خبر شائع کرتے ہیں اس لیے خبر کے اس معتبر زریعے کو بحال رکھنا بہت ضروری ہے ۔فی الوقت اس کا واحد حل اشتہارات ہی ہیں ۔ اشتہارات کے ساتھ میڈیا ورکرز کی بروقت تنخواہوں کو منسلک کرنے کا قانون بنا دیا جائے تو “خبر” مزید مضبوط ہو گی ۔ وزیراعلی پنجاب نے اپنی کارکردگی کا فل پیج اشتہار شائع کروا دیا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یار دوست  اس اشتہار پر تنقید کرنے کی بجائے اس میں شامل خبروں کو غلط ثابت کرنے پر تحقیق کریں ۔ مثبت تنقید وہی ہو گی کہ اس کارکردگی اشتہار کے متن کو غلط ثابت کیا جائے ورنہ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ تشہری انداز پر اعتراض کے باوجود اتنے کام ایک سال  میں ہو چکے ہیں ۔ ویوز کے لیے  فحاشی یا جھوٹے وی لاگ  کا سہارا لینے کی بجائے سچ پر مبنی اشتہار زیادہ اہم ہے۔(بشکریہ  نئی بات )

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں