تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
اگر ویڈیوز لیک کر بھی دی جائیں تو کیا فرق پڑے گا؟ چند دن کا چسکا اور پھر نئے چسکے کی تلاش۔ میرے جیسے کئی کالم نگار ان ویڈیوز کی بات نہ کرتے لیکن کیا کریں پی ٹی آئی خود سے آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہے کہ ویڈیوز آنے والی ہیں۔
فواد چوہدری نے باقاعدہ عید سے پہلے اعلان کیا کہ سیاسی مخالفین کا پلان ہے‘ عید کے بعد عمران خان کی نازیبا ویڈیوز ریلیز کی جائیں۔ فرمایا: یہ سب فیک ویڈیوز ہوں گی۔ اگر کمی رہ گئی تھی تو سابق وزیراعظم عمران خان نے خود ہی ایک انٹرویو میں کنفرم کیا کہ ان کی ویڈیوز کے ذریعے کردار کشی کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ چند سال پہلے عمران خان کے ایک قریبی کالم نگار نے لکھا تھا‘ عمران خان نے انہیں بلا کر کہا تھا کہ ان کے مخالفین الیکشن 2018 سے پہلے ان کی ویڈیوز ریلیز کر سکتے ہیں‘ لہٰذا وہ ان کا دفاع کرنے کیلئے تیار رہیں۔ خان صاحب کے ذہن پر ان ویڈیوز کا خوف پرانا ہے اور وہ گاہے گاہے اپنے وفاداروں کو ذہنی طور پر تیار کرتے رہتے ہیں کہ اگر وہ ویڈیوز سامنے آئیں بھی تو وہ پریشان نہ ہوں۔ آج کل عمران خان پھر خود یہ بات ٹی وی انٹرویوز میں کہہ رہے ہیں ان کی ویڈیوز سامنے آنے والی ہیں۔ اب انہیں کالم نگاروں کو بلا کر اپنا دفاع کرانے کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ اب ان کے پاس سوشل میڈیا ٹیم ہے‘ لاکھوں فالورز ہیں جن کیلئے یہ میسج تھا وہ اپنے keyboards سنبھال لیں اور ابھی سے قوم کو ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کریں کہ یہ سب سازش ہے اور جعلی ویڈیوز ہیں۔
اب ایسے Apps سے مشہور لوگوں کی فیک ویڈیوز بناکر پھیلائی جارہی ہیں جس سے کسی بھی بندے کے سر پر آپ کا چہرہ نکال کر فٹ کر دیا جاتا ہے۔ ویڈیوز میں فیس آپ کا رہتا ہے اور عام آدمی یہ سمجھتا ہے وہی مشہور بندہ ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال چند برس پہلے ایک بھارتی اداکارہ پر ہوا‘ جب اس کا چہرہ گندی فلم میں کسی اور پر لگا کر اسے بدنام کیا گیا تھا۔ اس وقت پتا چلا تھا‘ ایسی ٹیکنالوجی بھی موجود ہے۔یوں مشہور لوگوں کو اطمینان ہوا کہ کل کلاں کو اگر کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو اس ٹیکنالوجی پر ملبہ ڈالا جا سکے گا۔ مخالفین کو ان کی کمزوریوں سے بلیک میل کرکے اپنی مرضی کے کام نکلوانا پرانا حربہ ہے۔ فلموں میں ایسے کام اکثر دکھائے جاتے ہیں لہٰذا عوام ذہنی طور پر ان چیزوں کے وجود کو مانتے بھی ہیں۔ عرصہ ہوا‘ لوگ اگر ایسی ویڈیوز کو بھول گئے تھے‘ تو مریم نواز صاحبہ نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے پاس ججوں کی ویڈیوز ہیں جنہوں نے نواز شریف اور انہیں پانامہ میں سزا دی تھی۔ مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس دیگر کئی لوگوں کی ویڈیوز ہیں۔
کسی اہم بندے نے مجھ سے پوچھا: ویڈیوز کب آرہی ہیں؟ میں نے الٹا ان سے پوچھ لیا: یہ کس نے کہا ہے کہ اس کے پاس ویڈیوز ہیں؟ وہ صاحب کچھ گھبرا سے گئے اور کہا: یہ تو مجھے نہیں پتا۔ میں نے پوچھا: کیا نواز لیگ یا پیپلز پارٹی کے کسی وزیر یا عہدیدار نے کہا ہے کہ ان کے پاس ویڈیوز ہیں اور وہ ریلیز کرنے لگے ہیں؟ وہ بولے: نہیں‘ سب چپ ہیں۔ میں نے تو کسی سے نہیں سنا۔ یہ سب کچھ خود پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا: پی ٹی آئی جان بوجھ کر ان ویڈیوز کے حوالے سے قوم کو تیار کررہی ہے تاکہ اس کا اثر کم ہو۔ دراصل اس پارٹی نے ریحام خان کی کتاب کو جس طرح خود ہی پہلے لیک کیا تھا اور حمزہ عباسی کو ٹی وی شوز پر بٹھا دیا تھا اس سے کتاب کا اثر کم ہوگیا تھا۔ اگر وہ سکینڈل یا خبر آپ کے مخالفیں مرچ مسالا لگا کر ریلیز کریں‘ اور آپ پر اچانک حملہ کیا جائے تو آپ سنبھل نہیں پاتے‘ لیکن اگر آپ خود اس خبر کو سافٹ ریلیز کرا دیں (pre-empt) کر دیں تو نقصان کم ہوتا ہے۔ عمران خان یہ کامیاب تجربہ ریحام خان کی کتاب والے ایشوز پر کر چکے ہیں اور اس کے نتائج وہ مثبت طور پر اپنے حق میں استعمال کرچکے ہیں۔ ورنہ اگر وہ کتاب اچانک مارکیٹ میں آتی تو ایک بم شیل ثابت ہوتی اور عمران خان سنبھل نہ پاتے۔
اس پورے کھیل میں سب سے اہم عنصر سرپرائز ہوتا ہے۔ اگر سرپرائز اس میں سے نکل جائے تو پھر اس میں وہ سنسنی یا تھرل نہیں رہتا جس کی وجہ سے کوئی بھی سکینڈل کھڑکی توڑ ہفتہ مناتا ہے یا کوئی ویڈیو عوام کا رش لیتی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں بڑی سمجھداری سے پی ٹی آئی خود ہی ویڈیو کی اس طرح سافٹ لانچنگ میں لگی ہوئی ہے جیسے ریحام خان کی کتاب کے وقت کیا گیا اور مطلوبہ نتائج حاصل کیے گئے تھے۔
پھر پوچھنے لگے: یہ ویڈیوز کب سامنے آئے گی؟ اگر اب نہیں لانی تو کب لانی ہے کیونکہ عمران خان کی مقبولیت تو روز بروز بڑھتی جارہی ہے؟ میں نے ان سے سنجیدہ سوال کیا: آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ ان ویڈیوز کے آنے سے عمران خان کی مقبولیت میں فرق پڑے گا؟ وہ چپ رہے۔ میں نے کہا: میرا خیال ہے یہ چسکوری قوم ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان کا یہ کوئی پہلا سکینڈل ہے جس پر قوم حیران ہوجائے گی کہ ان کا لیڈر جو ریاست مدینہ بنا رہا تھا وہ اس طرح کے کاموں میں بھی ملوث ہوسکتا ہے؟ جب سے ہم جوان ہوئے ہیں اس طرح کی خبریں ان کے بارے میں پڑھتے آئے ہیں۔ امریکہ سے لندن تک کئی سکینڈلز سامنے آئے۔ ان سے کیا فرق پڑا؟ ان سکینڈلز کے باوجود وہ اس ملک کے وزیر اعظم بھی بنے اور اب حکومت سے نکلنے بعد مقبول بھی ہیں بلکہ پاکستانی قوم کو عزت اور غیرت کا مطلب بھی سکھا رہے ہیں۔
اس ملک کے عوام کو کسی لیڈرکی اخلاقی کرپشن یا مالی کرپشن سے پرابلم نہیں ہے۔ اگر اس قوم کا کسی حکمران کو پسند کرنے کا معیار اس کی اخلاقی، مالی ساکھ اور ایمانداری ہوتی تویقین کریں‘ اس ملک کے وزیراعظم عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف یا زرداری صدر نہ بنتے۔ جہاں جہاں ہمیں موقع ملتا ہے ہم روز اپنے اپنے لیول پر یہی سب کچھ کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے لیڈروں کی یہ سب حرکتیں بری نہیں لگتیں۔ برسوں سے زرداری اور شریفوں کی کرپشن ایکسپوز ہوتی رہی ہیں۔ کیا فرق پڑا؟ وہی پھر اس ملک کے حکمران ہیں۔ وہی عمران خان اس ملک کے اس وقت مقبول ترین لیڈر ہیں جو خود بتا رہے ہیں کہ ان کی ویڈیوز آنے والی ہیں۔ وہ بولے: تو پھر ریلیز کیوں نہیں کی جارہیں؟ میں نے کہا: شاید جنہوں نے ویڈیوز ریلیز کرنی ہیں ان کا مقصد اتنا ہی ہوکہ خان صاحب کا ہر دو تین سال بعد تراہ نکالا جائے جبکہ وہ خود ہی ایسی ویڈیوز کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں۔ خان صاحب اندھیرے میں آنکھوں پر پٹی باندھے ہاتھ میں لاٹھی پکڑے ان دیکھے دشمن پر مسلسل چلا رہے ہیں۔ شاید دشمنوں کا یہی مقصد ہوکہ ویڈیوز دکھا کر خان صاحب کو کیا پریشان کرنا ہے‘ انہیں اسی ٹینشن میں رکھوکہ بس آج ویڈیو آئی کہ کل آئی۔ خان صاحب کی عید خراب کرو۔ ان کے وزیروں اور حامیوں کا لہو خشک کیے رکھو۔
وہ کہنے لگے: بات تو غلط ہے۔ میں نے کہا: بالکل غلط ہے‘ ایسا نہیں ہونا چاہئے لیکن کیا کریں ایسے ہائی مورال سٹینڈرڈز سیٹ بھی تو خان صاحب نے خود کیے ہیں۔ خود کو نیکی کا مہاتما بنا کر وہ جس تخت پر چڑھ گئے تھے اس کے بعد مخالفین تو انہیں تخت سے نیچے لانے کیلئے یہ سب کچھ کریں گے ہی۔
جب بھی اخلاقی بات ثابت کرنی ہو تو عمران خان پاکستانیوں کو شرمندہ اور احساس کمتری کا شکار کرنے کیلئے برطانیہ یا یورپ کی مثال دیتے تھے کہ دیکھو فلاں پبلک فگر کو معمولی سے معمولی سکینڈل پر بھی استعفیٰ دینا پڑا۔ اب برطانیہ میں ہائوس آف کامنز کا ایک ممبر پارلیمنٹ نازیبا ویڈیو کلپ دیکھتا پکڑا گیا۔ اس نے فوراً استعفیٰ دے دیا۔ اگر برطانیہ میں سیاستدان ٹوٹا دیکھتا پکڑا جائے تو استعفیٰ دے کر سیاست چھوڑ دینا عمران خان کے نزدیک مغربی جمہوریت کی خوبی ہے لیکن پاکستان میں آپ کی ویڈیوز بھی آ جائیں یا تو وہ ”جعلی‘‘ ہیں یا پھر ”کردار کشی‘‘ کہلاتی ہیں۔(بشکریہ دنیانیوز)