تحریر: جاوید چودھری
ج محمد ارشد ملک نے 6 اپریل 2019 کو جاتی عمرہ میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی لیکن اس ملاقات سے پہلے ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا‘ جج کے بقول فروری میں ناصر بٹ اور خرم یوسف میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا ’’کیا ناصر جنجوعہ نے آپ کو ملتان کی ویڈیو دکھا دی تھی‘ میں یہ سن کر حیران رہ گیا‘‘ میں کہانی آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو ملتان کی ویڈیو کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ یہ ویڈیو میاں طارق نے ملتان میں بنائی تھی‘ یہ کسی ایسے گھر کی ویڈیو ہے جس میں دیواروں پر تصویریں لگی ہیں‘ سامنے صوفہ رکھا ہوا ہے اور اس صوفے پر غیر اخلاقی حرکتیں ہو رہی ہیں۔
ویڈیو میں نظر آنے والے لوگ اس قدر مدہوش ہیں کہ یہ کیمرہ مین کی موجودگی سے بھی بے پروا ہو چکے ہیں‘اس ویڈیو کے بارے میں بھی تین ورژن ہیں‘ شریف فیملی کا کہنا ہے یہ ویڈیو میاں طارق نے ریاستی اداروں کو دے دی تھی اور اداروں نے یہ ویڈیو دکھا کر جج صاحب کو میاں نواز شریف کے خلاف فیصلے پر مجبور کیا تھا‘یہ موقف مریم نواز نے چھ جولائی کی پریس کانفرنس میں بھی دیا تھا جب کہ جج صاحب کا دعویٰ ہے یہ ویڈیو میاں طارق سے ناصر جنجوعہ‘ خرم یوسف اور ناصر بٹ نے خریدی تھی۔
میری اپنی اطلاع کے مطابق یہ ویڈیو ناصر جنجوعہ اور خرم یوسف نے لاہور کے فائیو اسٹار ہوٹل میں پانچ کروڑ روپے اور ایک جیپ کے بدلے خریدی ‘ رقم میاں نواز شریف کے ایک عزیز نے ادا کی تھی اور سودا پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک اہم لیڈر نے کرایا تھا‘ یہ لیڈر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور اٹھارہ سال سے میاں طارق کو جانتے ہیں‘ سودے میں ملتان کے ایک اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
ویڈیو میں جج صاحب کا چہرہ کلیئر نہیں تھا‘خریدار فیس میچنگ چاہتے تھے‘ اس فیس میچنگ کے لیے ایک لمبا اسٹیج سجایا گیا‘ ناصر بٹ نے ویڈیو کا حوالہ دیا‘ جج صاحب میاں طارق سے رابطے پر مجبور ہو گئے‘ میاں طارق نے جج صاحب کو ملتان بلایا اور یہ کہہ کر انھیں اخبار کے دفتر لے گیا ’’آپ کی جان صرف یہ ایڈیٹر چھڑوا سکتا ہے‘‘ اور جج صاحب مجبوری میں میاں طارق کے ساتھ اخبار کے دفتر چلے گئے‘ دفتر میں کیمرے لگے تھے‘ جج صاحب کی ہر اینگل سے فلم بنا لی گئی‘ یہ فلم بعد ازاں غیر اخلاقی ویڈیو سے ’’میچ‘‘ کی گئی‘ ویڈیو میچ کر گئی اور یوں بات سودے تک پہنچ گئی۔
میں نے جج صاحب کی ملتان آمد اور اخبار کے دفتر جانے کی معلومات کے لیے ایکسپریس ملتان کے بیورو چیف شکیل انجم سے رابطہ کیا‘ یہ پرانے صحافی ہیں‘ بلیک پرنس اور ساڑھے پانچ ہزار کلو گرام چرس کی خبر بھی شکیل انجم نے 2001 میں بریک کی تھی‘ شکیل انجم نے تھوڑا سا وقت لیا اور جج صاحب کی ملتان آمد‘ ہوٹل گریس میں قیام اور اخبار کے دفتر کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوا کر بھجوا دی‘ میں شکیل انجم کے ’’ذرایع‘‘ پر حیران رہ گیا بہرحال قصہ مختصر جج صاحب کا چہرہ میچ ہوا اور ویڈیو بک گئی اور تیسرا ورژن جج ارشد ملک کا ہے‘ یہ دعویٰ کرتے ہیں یہ ویڈیو ن لیگ نے میاں طارق سے حاصل کی اور یہ لوگ مجھے اس کے ذریعے مسلسل بلیک میل کرتے رہے۔
ہم اب مین اسٹوری کی طرف واپس آتے ہیں‘ جج ارشد ملک6 اپریل کو جاتی عمرہ میں میاں نواز شریف سے ملے‘ ملاقاتی روم میں بھی کیمرے لگے تھے اور جج صاحب اور میاں صاحب کی ساری گفتگو ریکارڈ ہو رہی تھی‘ جج صاحب بعد ازاں 28 مئی کو فیملی سمیت سعودی عرب چلے گئے۔
جج صاحب کا کہنا ہے یہ ان کا ذاتی دورہ تھا جب کہ دوسرے فریقین کا دعویٰ ہے خرم یوسف اور ناصر بٹ انھیں عمرے پر لے کر گئے تھے تاہم یکم جون کو مدینہ منورہ میں جج ارشد ملک اور حسین نواز کی ملاقات ہوئی‘ یہ ملاقات بھی باقاعدہ ریکارڈ ہوئی‘ شریف فیملی نے دعویٰ کیا یہ ملاقات جج صاحب کی مرضی اور خواہش سے ہوئی تھی اور اس میں انھوں نے ان تمام لوگوں کا ذکر کیا تھا جو نواز شریف کے مقدمات کے دوران جج صاحب سے ملاقات کرتے رہے۔
جج ارشد ملک نے ان سینئر ججوں کا تذکرہ بھی کیا جو بات کرنے سے پہلے ان سے حلف لیتے تھے اور انھیں پھر ہدایات دیتے تھے‘ حسین نواز کے ساتھ ملاقات کی ویڈیو اس اسکینڈل میں بہت اہم ہے‘ یہ ویڈیو ثابت کرے گی یہ ملاقات جج صاحب کی مرضی سے ہوئی تھی یا پھر یہ بلیک میل ہو کر سعودی عرب پہنچے تھے‘ یہ ویڈیو یہ بھی ثابت کرے گی 50 کروڑ روپے اور کینیڈا میں سیٹل منٹ کی پیش کش حسین نواز نے کی تھی یا پھر یہ جج صاحب کی ڈیمانڈ تھی تاہم یہ درست ہے مدینہ منورہ میں 50 کروڑ روپے کی بات ہوئی تھی اور کرنے اور سننے والے دونوں کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوا تھا یہ مدینہ منورہ میں بیٹھ کر کیا بات کر رہے ہیں‘ یہ روضہ رسولؐ کے سامنے کیا گندگی پھیلا رہے ہیں؟۔
ہم اگر یہاں تک کی کہانی کا تجزیہ کریں تو ہمیں اس کہانی کے تمام کردار ننگے اور قابل افسوس دکھائی دیتے ہیں‘ آپ جج صاحب کا کردار دیکھیے‘ یہ 2001میں ملتان میں منشیات کے اسمگلروں سے بھی ملتے رہے‘ یہ ان کی پرائیویٹ پارٹیوں میں بھی شریک ہوتے رہے اور ان کی غیر اخلاقی ویڈیوز بھی بنتی رہیں لیکن ریاست کے کسی ادارے کو کانوںکان خبر نہیں ہو ئی‘ یہ جج صاحب بعد ازاں ترقی کرتے کرتے اس لیول پر آگئے جہاں ان کی عدالت میں چار سابق وزراء اعظم اور ایک سابق صدر کا کیس چلنے لگا۔
یہ میاں نواز شریف کے کیس کے دوران شریف فیملی کے ایجنٹوں سے بھی ملتے رہے ‘ ان سے پیش کشیں اور دھمکیاں بھی وصول کرتے رہے اور یہ اپنے کسی سینئر کو اطلاع تک نہیں دیتے تھے‘ یہ ناصر جنجوعہ سے یہ تک بھی سن لیتے تھے’’ میں نے میاں نواز شریف کے ذریعے آپ کو احتساب عدالت کا جج لگوایاتھا‘‘ اور یہ اس انکشاف کے باوجود اپنی کرسی پر بھی بیٹھے رہے‘یہ فیصلہ سنانے کے بعد بھی ناصر بٹ‘ خرم یوسف‘ مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ جیسے لوگوں کے ساتھ ملتے رہے۔
یہ جاتی عمرہ میں اس مجرم سے بھی ملاقات کے لیے گئے جسے انھوں نے اپنے ہاتھوں سے سزا دی تھی‘ یہ ناصربٹ اور خرم یوسف سے اپنے گھر میں بھی ملاقات کرتے رہے اور یہ پورے ہوش و حواس میں انھیں یہ بھی بتاتے رہے سازوں کے سُر کس طرح سیدھے اور رواں کیے جاتے ہیں اور میں اس فیصلے پر کس طرح مجبور ہوا تھا اور یہ مدینہ میں حسین نواز سے بھی مل لیتے ہیں اور یہ انھیں یہ بھی بتا دیتے ہیں مجھ سے کب اور کہاں کہاں حلف لیا گیا تھا اور یہ جسارت کس نے کی تھی‘ یہ 50 کروڑ روپے کی آفر بھی سن لیتے ہیں اور یہ واپس آ کر اپنے ادارے کے کسی سینئر کو اعتماد میں نہیں لیتے اور یہ اپنی ویڈیو کا پیچھا کرتے کرتے ملتان بھی پہنچ جاتے ہیں اور ویڈیو کے سوداگر ایڈیٹر کے دفتر سے بھی ہو آتے ہیں اور کسی ادارے کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور آپ یہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ مریم نواز کیا کر رہی ہیں؟یہ خاتون اور جوان بچوں کی ماں ہو کر ویڈیوز بنوا رہی ہیں۔
غیر اخلاقی ویڈیوز خرید رہی ہیں اور پریس کانفرنس کر کے یہ گند پورے ملک میں پھیلا رہی ہیں‘ میاں نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم رہے ہیں‘ میں آج بھی سمجھتا ہوں میاں نواز شریف کو غلط سزا دی گئی تھی لیکن مجھے اس کے باوجود میاں نواز شریف سے یہ توقع نہیں تھی یہ جج ارشد ملک سے جاتی عمرہ میں ملاقات کریں گے اور یہ اپنی نگرانی میں جج کی ویڈیو بنوائیں گے‘ کم از کم میاں نواز شریف جیسے سیریس اور سینئر سیاست دان کو اس گند کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا اور حسین نواز بھی مدینہ میں جج صاحب سے مل رہے ہیں اور اس کی ویڈیو بنا رہے ہیں‘کیا اخلاقیات ان لوگوں کو اس کی اجازت دیتی ہے؟
شریف فیملی کو جب سسلین مافیا کا خطاب دیا گیا تھاتو ہم سب نے اس پر احتجاج کیا تھا لیکن کیا شریف فیملی نے اس گند کا حصہ بن کر خود کو مافیا ثابت نہیں کردیا؟آپ لیڈر ہیں‘ آپ قوم کے باپ ہیں کم از کم آپ کو اس لیول تک نہیں گرنا چاہیے تھا‘ مجھے میاں نواز شریف سے ہرگز ہرگز یہ توقع نہیں تھی اور پھرآپ صحافیوں کا کردار بھی دیکھیے‘ یہ اپنے دفتر میں کیمرے لگا کر غیر اخلاقی ویڈیو کی خرید وفروخت میں شامل ہو رہے ہیں‘ یہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ اور یہ تمام لوگ مل کر کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ۔
میں نہیں جانتا جج ارشد ملک سچے ہیں یا پھر نواز شریف فیملی سچ کہہ رہی ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں یہ کیس اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو گا‘ یہ ثابت کر دے گا ملک کا کوئی ادارہ قابل احترام نہیں اور عوام اب ملک کے کسی ادارے کی ساکھ‘ ایمان داری اور نیک نیتی کی قسم نہیں کھا سکتے ‘ اللہ تعالیٰ منصف ہے اور جج انصاف میں اللہ کے نائب ہوتے ہیں لیکن یہ نائب اس ملک میں کیا کر رہے ہیں؟ خدا کی پناہ یہ بلیک میل بھی ہو رہے ہیں اوریہ ملزموں اور مجرموں کے ایجنٹوں سے بھی مل رہے ہیں‘ سیاست دان قوم کے سر کی چادر ہوتے ہیں‘ یہ قوم کے عیب ڈھانپتے ہیں لیکن ہمارے سیاست دان کیا کر رہے ہیں؟ یہ ججوں کی خریدو فروخت میں بھی ملوث ہیں‘ یہ ان کی ویڈیوز بھی بنا رہے ہیں اور یہ ان کی آڈیوزبھی ریکارڈ کر رہے ہیں۔
بیورو کریسی ملکوں کا گیئر باکس ہوتی ہے مگر ہمارا گیئر باکس سال سے بند پڑا ہے اور پیچھے رہ گئی حکومت تو آپ سینیٹ کے چیئرمین کی تبدیلی پر حکومت کا کردار بھی دیکھ لیجیے گا‘ آپ کو اپنے آپ سے نفرت ہو جائے گی‘ مجھے نہیں معلوم جج ارشد ملک کے ایشو کا کیا حل نکلتا ہے؟ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کس نتیجے پر پہنچتا ہے لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں جج ارشد ملک نے ملک کا عدل اور انصاف کا پورا نظام داؤ پر لگا دیا۔
موصوف نے ثابت کر دیا قوم گندگی کے ایک ایسے ڈھیر پر بیٹھی ہے جس کے نیچے بدبودار بیماری کے سوا کچھ نہیں اور میاں نواز شریف نے بھی یہ کھیل‘ کھیل کر اپنی اخلاقی سیاست کا جنازہ نکال دیا‘ یہ ثابت کر بیٹھے ہیں یہ ناصر بٹ اور مہر جیلانی جیسے ٹاؤٹوں میں گھرے ہوئے ہیں اور یہ بھی گھی نکالنے کے لیے کسی بھی سطح تک جا سکتے ہیں‘ افسوس ہم واقعی گندگی کے ایک ایسے ڈھیر پر ہیں جس میں اوپر نیچے اور دائیں بائیں گندگی کے سوا کچھ نہیں‘ اب صرف اللہ ہی ہماری حفاظت کرسکتاہے۔۔۔(بشکریہ ایکسپریس)