بلاگ: ارم لودھی
گھر ایک سربراہ کے ببغیر ادھورا تصور کیاجاتا ہے کیونکہ ایک سربراہ وہی ہوتا ہے جو گھر کو اپنے کردار سے مثالی بناتا ہے جس طرح ایک ملک کو بہتر طریقوں سے ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لئے اعلٰی قیادت کا ہوناضروری سمجھا جاتا ہے اِسی طرح اایک جامعہ کے لئے مستقل وائس چانسلر کا ہونا اہم ہوتا ہے ،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے اعلٰی تعلیمی اداروں میں وائس چانسلر کے عہدے کو وہ اہمیت ہی نہیں جاتی جو گھر کے سربراہ کو ملتی ہے،کچھ ایسا ہی حال اُردو زبان پر قائم ہونے والی ملک کی واحد جامعہ، وفاقی اُردویونیورسٹی کا ہے ، جہاں گزشتہ کچھ سالوں سے مسائل کا شکار اعلٰی تعلیمی ادارے کااہم ترین عہدہ اکتوبر دوہزار سترہ اب تک مستقل وائس چانسلر کے بجائے قائم مقام وائس چانسلر کے پاس ہے ۔ جنوری دوہزار گیارہ سے ڈاکٹرمحمد قیصر کی جامعہ کراچی میں بطور وائس چانسلر تقرری کے بعد سے مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی متنازع بنی رہی، طویل عرصے تک جامعہ اردو سربراہ سے محروم رہی، وفاقی اُردویونیورسٹی کو وائس چانسلر کے بغیر جن مشکلات کا سامنا رہا اُس سے کہین زیادہ مشکلات من پسند متنازع کرپٹ وائس چانسلر کے آنے سے ہوئیں، کرپشن و اختیارات کے ناجائز استعمال میں ملوث ڈاکٹر ظفر اقبال کو عدالت کی جانب سے وائس چانسلر کے عہدے سے برطرف کئے جانے کے باوجودبھی بحال کر دیاگیا، سابق قائم مقام وائس چانسلرسلیمان ڈی کا کرداربھی اس حوالے سے متنازع رہا، دونوں سابق وائس چانسلرز کی جامعات کے اندرونی معاملات پر توجہ کم اور اپنے اوپر لگے کرپشن الزامات پر زیادہ رہی۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ماضی میں ایک طویل عرصے کی خوب چھان پھٹک کے بعد بھی سینیٹ سرچ کمیٹی میرٹ پر ایک مستقل اور قابل وائس چانسلر ہی نہ ڈھونڈ پائی۔آج اگرگزشتہ چند برسوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ جامعہ اردو کو اپنے قیام کے پندرہ برس گزر جانے کے بعد بھی دیگر جامعات کی طرح زیادہ مراعات و سہولتیں تو نہ مل سکی جس کی یہ حق دار تھی ، مگر وائس چانسلر اور افسران کی اعٰلی عہدوں پر تقرریوں ، کرپشن، انتظامی بحرانوں اور سنگین مالی بےقاعدگیوں جیسے مسائل کی وجہ سے کافی شہرت ضرور مل گئی ۔ ملک کے اعٰلی تعلیمی اداروں میں عدالتی کیس ،نیب اور ایف آئی اے مقدمات کے حوالے سے جامعہ اردو کا نام سر فہرست ہے جہاں من پسند افسران کو نوازنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔وفاقی جامعہ اردو میں ہونے والی سنگین مالی کرپشن اور قانونی بے قاعدگیوں پر معتدد تحقیقاتی کمیٹیاں بنیں اور تحلیل بھی ہوئیں، سینیٹ وسنڈیکیٹ کے قوانین کی خلا ف ورزیوں پر کئی رپورٹیں بھی منظر عام پر لائی گئیں لیکن ذمہ داروں کے خلاف کوئی عملی کارروائی نہیں کی گئی۔ کرپشن کو بے نقاب ہونے سے بچانے کے لئے سینیٹ کے اجلاس تک ملتوی کر دیئے گئے،،جعلی ڈگریوں کے حوالے سے بھی متنازع بنی رہی،،مارچ دوہزارچودہ میں پاکستان کی تمام تر جامعات اور ہائرایجوکیشن کمیشن کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سابق وزیراعظم نوازشریف کی سربراہی میں اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیتی قائم کی گئی تھی ،دیگر جامعات کے معاملات تو ایک طرف جامعہ اردو کے مسائل پر اب تک وہ کمیٹی غیرفعال نظر آئی۔۔جامعہ اردو کے مستقل وائس چانسلر کے تقرر کےلئے کئی بار سرچ کمیٹی کو فعال کیاگیا ،، عدالتی احکامات اور سینیٹ کی سفارشات کے باوجود مستقل وائس چانسلر کی تقرری رکاوٹ بنی رہی۔ اکتوبردوہزار سترہ میں ایک بار پھر ڈاکٹر الطاف حسین کی صورت جامعہ کو محدود مدت کے لئے قائم مقام وائس چانسلر دے دیاگیا،جن کی مقررہ مدت مکمل ہونے والی ہے۔۔ اس طرح سے گزشتہ ماہ وائس چانسلر کے عہدے کے لئے ذرائع وابلاغ میں دیئے گئے اشتہار کے ذریعے مستقل وائس چانسلر کی تلاش کا سفر ایک بار پھر شروع کردیاگیا،اہم بات یہ ہے کہ موجودہ وائس چانسلر( ڈاکٹر الطاف حسین )کی مدت پوری ہونے کے بعد نئے وائس چانسلر کی تقرری میں اتنا ہی طویل عرصہ درکارہوگا جتنا کہ ماضی میں کرپٹ وائس چانسلر کی تقرری میں لگا اور اس حوالے سے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ میرٹ اور شفاف طریقوں سے آنے والے مستقل وائس چانسلر کی تقرری کے لئے جامعہ کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اُسے ایک بار پھر دہرایاجائے گا یانہیں ؟اعلی افسران کی تقرریاں ملک کی ہر جامعات میں احسن طریقے سے انجام دی جاتی ہے ،لیکن وفاقی جامعہ اردو میں وائس چانسلرسسمیت دیگر افسران کی تعیناتی ایک ناحل ہونے والا معمہ بنادگی ئی۔۔جب تحقیقاتی کمیٹیوں کے ممبران من پسند افراد میں سے ہوں تو تحقیقاتی کمیٹیوں میں شفافیت ، ناجائز اختیارات اور جھوٹ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہےں،جہاں بااثر سفارشات ، بااثر افسران ہوںوہاں ایک دو لوگوں کی کرپشن بے نقاب ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،۔ اصلاح وکاروائیوں کا وقت تب آتا ہے جب تعلیمی اداروں میں بگاڑ تیزی سے بڑھتا ہی چلا جائے اور اس پر قابو پانے کے لئے کوئی عملی اقدامات نہ کئے جائیں ، معاملہ چاہے کروڑوں روپوں سے بھرے جعلی بینک اکاؤنٹس کا ہو یا کرپٹ افسران کی تعیناتی کا، شعبہ کوئی بھی ہو کرپشن کسی ایک فرد تک محدود نہیں رہتی، نہ صرف تعلیمی سطح پر بلکہ کرپشن کا ناسور ملک کے تمام اداروں میں پھیل چکا ہے جس پر بر وقت کنٹرول نہ کیاگیاتو ملک کی بنیادیں کھوکھلی ہوجائیں گی۔۔
موجودہ بحران اور مسائل سے جامعہ اردو کو نہ بچایاگیا تو وہ وقت دورنہیں جب جامعہ اردو کی ڈگریاں اپنے ادارے کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت بھی کھو دے گی۔بڑے اور اہم عہدوں کو غلط ہاتھوں میں دے کر تعلیم کے ساتھ کھلواڑکیاگیا،اعلی تعلیمی اداروں میں جامعات کا نظام ایسے افراد کو سونپ دینا جو نااہل ہوں ، تعلیمی اداروں میں ایسے کرپشن وسیاسی معاملات کا منظر عام پر آنا کوئی بھی مہذب معاشرہ برداشت نہیں کر سکتا۔ اعلی تعلیمی اداروں میں وائس چانسلر سمیت دیگر عہدوں پر تقرریوں کو شفاف اور موثر بنانا نہایت ضروری ہے ۔ سیاسی بنیادوں پر آنے والے کرپٹ افراد کی تقرری نہ صرف تعلیمی اداروں کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے بلکہ ان طلبا کے لئے بھی کسی مسائل سے کم نہیں جو ان اداروں میں زیرتعلیم ہیں،ایسی صورتحال میں طلبا کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہائر ایجوکیشن ان طلبہ و طالبات کے مستقبل کی ضمانت دے پائے گی جن کی ڈگریوں پر کرپشن کے الزامات میں ملوث سابق وائس چانسلر کے دستخط وفاقی جامعہ اردو کی ترجمانی کرتے ہوں؟۔۔۔(ارم لودھی، کراچی)