وزیراطلاعات پنجاب عظمی بخاری کی فیک ویڈیو وائرل کرنے کےمقدمے کی لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ عدالت نے کارکردگی نہ دکھانے پر اظہار برہمی کیا اور ایف آئی اے کے مبہم جواب کو مسترد کردیا۔چیف جسٹس عالیہ نیلم نے استفسارکیاکہ عظمیٰ بخاری کے کیس میں کیا پراگریس ہے؟سرکاری وکیل نے کہاکہ ہم نے مختلف کمپنیوں کو اس حوالے سے لکھا ہے، ہم نے ویڈیو کو شیئرکرنے میں ملوث33اکاؤنٹس کی نشاندہی کی ہے۔وکیل عظمیٰ بخاری نے کہاکہ ان میں سے محض ایک شخص کو گرفتارکیاگیا ، جس نے ویڈیو آگے شیئر کی،اس کی بھی کل ضمانت لگی ہوئی ہے۔عدالت نے پوچھا تھا کہ سوشل میڈیا کے حوالے سےکیا قوانین موجود ہیں؟وکیل وفاقی حکومت نے عظمیٰ بخاری کے کیس سے متعلق کارکردگی رپورٹ جمع کروا دی،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم نے فیس بک اور واٹس ایپ کو اس حوالے سے لکھا مگر ان کا کوئی جوا ب نہیں آیا، وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ایف آئی اے چاہے تو یہ کیس آدھے گھنٹے میں حل ہوسکتا ہے۔ ایف آئی اے جان بوجھ کر معاملات لٹکا دیتاہے تاکہ مدعی خود ہی کیس واپس لےلے۔ مدعی کو ایف آئی اے والے اپنے دفاتر میں بٹھائے رکھتے ہیں جو انہیں ہراساں کرنا ہے۔ یہ سارا کچھ مذاق نہیں ہے عدالت اس معاملے پر سنجیدہ ہے۔ عدالت کو آئندہ سماعت تک عملی اقدامات کی رپورٹ پیش کی جائے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کامعاہدہ تھاکہ ایکس اور دیگر سوشل میڈیا نے پاکستان میں دفاتر بنانے تھے۔ معاہدے کےباوجود انہوں نے اپنے دفاتر نہیں بنائے۔ ایکس سے رابطے کےلئے خط اور ای میل لکھی گئی۔ ایکس سے رابطے کےلئے امریکی سفارتخانے اور امریکی ایف بی آئی کوبھی لکھاگیا۔عظمی بخاری کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ فیک ویڈیو پاکستان سے وائرل ہوئی۔ فیک ویڈیوز وائرل، شئیر کرنے والے پاکستان میں ہیں۔ ابھی تک پاکستان سے ایک ہی ملزم اشفاق کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دیگر ملزمان کو کسی نے آج تک پوچھا تک نہیں ہے۔ ایف آئی اے نے دوسرے صوبے میں کارروائی کےلئے وزارت داخلہ کو خط لکھا۔ عدالت نے کیس کی سماعت 05 ستمبرتک ملتوی کردی۔
عظمی بخاری فیک وڈیو کیس،عدالت ایف آئی اے پر برہم۔۔
Facebook Comments