تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، بچپن میں ابتدائی کلاس میں اردو کی کتاب میں ایک نظم پڑھی تھی، اٹھو بیٹا آنکھیں کھولو، بستر چھوڑو اور منہ دھولو۔۔ جدید سائنس نے اب کہیں جاکر اس نظم کی تصدیق کردی۔۔ جدید تحقیق کہتی ہے کہ رات جلد سونے اور صبح جلد بیدار ہو کر مناسب دورانیہ کی نیند لینے والے افراد کی زندگی طویل ہوتی ہے۔۔ جرمن میگزین فروئنڈینن میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ماہرین نے مناسب دورانیے کی نیند کو صحت مند رہنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ تحقیق کے دوران چار لاکھ افراد کے اعداد و شمار کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔تحقیق کاروں نے کہا ہے کہ بلا شبہ مناسب دورانیہ کی نیند ہم سب کے لیے اہم ہے کیونکہ انسانی جسم پورے دن کی مصروفیت اور دبائو کے سبب جس تھکن کا شکار ہوتا ہے نیند نہ صرف اس تھکن کو دور کرتی ہے بلکہ اس دوران ہمارا جسم نئے دن کے چیلنجز کے لیے بھی خود کو تیار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مناسب حد تک نیند اور پھر صبح جلد بیدار ہونے سے ہمارے جسم کی توانائی بحال ہو جاتی ہے۔ جرمن میگزین فروئنڈینن میں شائع تحقیق کے مطابق رات کو دیر سے سونے والے افراد جلد موت کے خطرات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سرے یونیورسٹی اور نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ماہرین نے تحقیق کے دوران چار لاکھ افراد کی صحت کے اعداد وشمار کا ساڑھے چھ سال تک جائزہ لیا۔ جس کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ایسے افراد جو رات کو دیر تک جاگتے رہتے ہیں اور پھر دن کو دیر تک سوئے رہتے ہیں وہ دیگر افراد کی نسبت موت کے 10 فیصد زائد خطرہ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بات ہورہی تھی نظم کی تصدیق کی۔۔ صبح سویرے جلد اٹھنا اور بستر چھوڑدینا کتنا اہم ہے، آپ نے جدید تحقیق پڑھ لی۔۔ اب امریکن تحقیق بھی سنیئے۔۔اگرآپ افسردگی اور یاسیت کے شکار ہیں تو ایک گھنٹے قبل بیدار ہونے سے اس کے ہولناک حملے سے بچ سکتے ہیں۔ یہ تحقیقات جرنل آف امریکن سائیکائٹری کی تازہ اشاعت میں پیش کی گئی ہیں۔اس تحقیق میں ایک دو نہیں بلکہ 8 لاکھ 40 ہزارافراد پر تحقیق کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ ایک گھنٹہ قبل بیدار ہوجائیں تو ڈپریشن کے شدید حملے میں 23 فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔ بولڈرمیں واقع یونیورسٹی آف کولاراڈو، بروڈ انسٹی ٹیوٹ اورہارورڈ کے سائنسدانوں نے یہ تحقیق کی ہے۔اس سروے میں اکثر افراد، وقت پر سونے اور جاگنے کے سختی سے قائل تھے جنہیں کرونوٹائپ کہا جاتا ہے اور نفسیاتی طور پروہ ڈپریشن کی زد میں ہوتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے پہلے سروے میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ دماغی و نفسیاتی تبدیلی کے لیے تھوڑی یا زائد تبدیلی کا اندازہ لگایا جاسکے۔لاک ڈاؤن اور وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کے سونے جاگنے کے معمولات پراثرپڑا ہے اور اسی وجہ سے اس تحقیقات کی اہمیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ہم نیند کے دورانئے اور موڈ کے درمیان تعلق سے تو واقف ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ نیند میں کمی بیشی سے کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں اور کیا کچھ نقصان ہوسکتا ہے؟‘تحقیق میں شامل ایک سائنس داں کا اصرار ہے کہ مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے سے بیدار ہونے سے ڈپریشن کا بہت حد تک کم ہوسکتا ہے۔اس سے قبل کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ رات بھر جاگنے والے خواتین و حضرات میں پہلے بیدار ہونے والوں کے مقابلے میں ڈپریشن کا خدشہ وگنا ہوجاتا ہے خواہ نیند کا دورانیہ کتنا ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اس پر تفصیلی تحقیق نہیں کی گئی تھی اور نیند کے دورانئے اور ڈپریشن کے درمیان تعلق واضح نہیں ہوسکا تھا۔اس سے قبل 2018 میں اسی ٹیم نے 32 ہزارنرسوں کا سروے کیا تھا، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ’جلدی بیدار‘ ہونے والوں میں چار سال کے اندر اندر ڈپریشن سے متاثر ہونے کا خطرہ 27 فیصد تک کم دیکھا گیا۔ لیکن ایک سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ ’جلد بیدار‘ ہونے کا کیا مطلب ہے۔اس مطالعے میں اگرچہ لاکھوں افراد شامل تھے لیکن 85 ہزارافراد کو ایک ہفتے تک نیند کا ریکارڈ رکھنے والے آلات پہنائے گئے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی نیند کم کردیں۔ اس دوران معلوم ہوا کہ مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ قبل بیدار ہونے والے افراد میں ڈپریشن کا خدشہ 23 فیصد تک کم ہوگیا۔ اسی طرح رات ایک بجے کی بجائے گیارہ بجے نیند کے لیے لیٹنے کا عمل بھی ڈپریشن کو کم کرسکتا ہے۔ماہرین کا خیال ہے جلد بیدار ہونے سے دن کی روشنی ملتی ہے اور اس کا اثر جسمانی ہارمون پر پڑتا ہے جس سے ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے اور ڈپریشن کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔۔ ایک آدمی کو نیند نہیں آتی تھی، اسکے دوست نے مشورہ دیا کہ پانچ سو تک گنو، نیند آجائے گی، ابھی تین سو تک گنا تھا کہ نیند آگئی، اس نے منہ دھو کر اپنی گنتی پوری کی۔!!شوہرنے شکوہ کیا، نیند نہیں آرہی، بیوی بولی، جاکر کچن میں برتن دھولو، شوہر جلدی سے کہنے لگا۔۔نیند میں بول رہا ہوں پگلی۔۔ڈاکٹر نے نیند نہ آنے کی شکایت پر مریض سے کہا۔ بستر پر لیٹ کر دو ہزار تک گِنا کرو، نیند آجائے گی۔اگلے روز وہ مریض ڈاکٹر کے پاس دوبارہ آیا تو ڈاکٹر نے پوچھا کہ مشورے پر عمل کیا۔مریض بولا۔۔ جی کیا تھا۔ بہت مشکل کام ہے، ایک ہزار تک پہنچا تو نیند آنے لگی، پھر کافی پی اور دو ہزار پورے کیے۔۔رات کے دو بجے ایک مریض نے اپنے ڈاکٹر کو فون کیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب، معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو زحمت دی۔ لیکن کیا کروں مجھے نیند نہیں آرہی۔‘‘ ۔۔ڈاکٹر نے کہا،’’میں نے آپ کو نیند کی جو دوائی دی تھی۔ وہ استعمال کر یں، نیند آجائے گی۔‘‘ مریض بولا۔ ’’میں وہ دوائی بھی استعمال کر چکا ہوں۔ مگر مجھے نیند نہیں آرہی۔ ڈاکٹر صاحب، دراصل آپ نے مجھے فیس کا جوبل بھجوایا ہے۔ اس نے میری نیند اڑادی ہے۔ بخدا، میں یہ بل ادا نہیں کر سکتا۔‘‘ ۔۔ڈاکٹر یہ سن کر گھبراتے ہوئے بولا۔۔’’اوہ میرے خدا۔یہ تم نے مجھے کیا کہہ دیا۔ اب میری نیند اڑ گئی ہے۔‘‘۔ایک صاحب گہری نیند سو رہے تھے کہ آدھی رات کو اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی‘ جب انہوں نے ریسیور اٹھایا یا تو دوسری طرف سے آواز آئی۔۔ ’’آپ کو جو تکلیف ہوئی اس کی معافی چاہتا ہوں بات یہ ہے کہ میں آپ کے پڑوس میں رہتا ہوں اور آپ کا کتا ساری رات بھونکتا رہتا ہے جس کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آتی براہ مہربانی اس کا کچھ علاج کیجئے‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔ اگلی رات کو اسی وقت دوسرے صاحب نے اپنے پڑوسی کو ٹیلی فون کیا اور کہا۔۔’’آپ کو جو تکلیف ہوئی اس کی معافی چاہتا ہوں بات یہ ہے کہ وہ کتا میرا نہیں ہے‘‘۔۔ڈاکٹر نے خاتون خانہ سے کہا۔۔ آپ کے شوہر کو مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ یہ نیند کی گولیاں لے جائیں۔۔خاتون بولیں۔۔: یہ میں اُنہیں کس وقت دوں؟ڈاکٹر نے کہا۔۔ یہ اُن کے لیے نہیں، آپ کے لیے ہیں۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ساری زندگی’’ باڈی‘‘ بناتے گزری، اب اس عمر میں جاکر پتہ چلا کہ’’ اینٹی باڈی‘‘ بنانی تھی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔