aik tabah saath | Imran Junior

اردو۔ ۔لینگویج

دوستو،ہمارے ٹی وی چینلز پر جس طرح کی اردو بولی جاتی ہے لگتا ہی نہیں کہ یہ اردو چینلز ہیں۔۔ اردو میں انگریزی اتنی زیادہ ملادی جاتی ہے کہ اب ہمارے بچے بھی مکس اردو بولنے لگے ہیں۔۔ کل ہم نے ایک بچے کو دیکھا جو اپنی عمر کے دوست کو بتارہا تھا۔۔یار کل مما نے گرم گرم دودھ دے دیا، میری تو ’’لینگویج‘‘ ہی جل گئی۔۔ اب اندازہ کرلیں، لینگویج کا استعمال کس خوبی سے کیاگیا ہے۔۔ ہمیں یاد ہے ملک میں جب نجی چینلز کا آغاز نہیں ہوا تھا( نوے کے عشرے کی بات ہے ) تو اگر کوئی غلط اردو بولتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ وہ’ ’گلابی اردو ‘‘ بولتا ہے۔ گلابی اردو بولنے والے عموماً اردو میں انگریزی کی آمیزش زیادہ کرتے تھے، یعنی ان کا ہر جملہ مکمل اردو یا انگریزی میں ہونے کے بجائے مکس شدہ ہوتا تھا جس کا واحد مقصد دوسرے پر اپنی انگریزی دانی کا رعب ڈالنا ہوتا تھا۔چلیں پھر آج اردو لینگویج کے حوالے سے اپنا ’’ہینڈ کلین‘‘ (ہاتھ کی صفائی) دکھاتے ہیں آپ کو۔۔

ماہرین لسانیات کا کہناہے کہ۔۔زندہ زبانوں کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ اس میں کھڑکیاں اور دریچے کھلے رکھے جائیں تاکہ دوسری زبانوں سے روشنی اور ہوائیں آتی رہیں۔ بلا شبہ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اگر دریچے وا نہیں رہیں گے تو زبان کا لفظی سرمایہ تنگ ہوتا چلا جائے گا۔ نئی فکر وتصورات کے بھی دروازے بند ہوجائیں گے۔ نئے افکار وخیالات کے بھر پور اظہار یا مکمل ترجمانی کے لیے ہمارے پاس جو لفظی و اصطلاحی سرمایہ ہونا چاہئے ہمیں اس سے بھی محروم ہوجانا پڑے گا اور زبان اپنے عہد کی دوسری زبانوں کے دوش بدوش نہیں چل سکے گی اور پھر زبان بقا سے عدم کی طرف بڑھتی چلی جائے گی۔ لیکن یہ بھی نظر میں رہنا چاہیے کہ دروازوں اور دریجوں سے گھر میں جو روشنی آتی ہے اس کے ساتھ گرد وغبار بھی آتے ہیں۔ ہم روشنی کو استعمال میں لاتے ہیں اور جو غبار آکر بیٹھ جاتا ہے اس کی جھاڑ پونچھ تسلسل کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اسی طرح جو ہوائیں آتی ہیں اس میں آکسیجن کے علاوہ دیگر ہوائیں بھی ملی ہوتی ہیں۔ ہماری ناک اپنے فطری عمل سے آکسیجن کو چھانٹ کر جسم تک لے جاتی ہے جبکہ بقیہ گیس جو نقصاندہ یا غیر نقصاندہ ہی سہی لیکن ہمارے لیے کام کی نہیں ہوتی ان کو چھوڑ دیتی ہے۔

اب جس طرح کی اردو ہمارے یہاں فروغ پارہی ہے اور الیکٹرانک میڈیا میں جس طرح سے دھڑلے اور تواتر سے اس اردو کا استعمال ہونے لگا ہے،انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔۔ ٹی وی پر اشتہارات اب کچھ یوں آنے لگے ہیں۔۔’’ کم آن گرلز،یہ وقت ہے شائن کرنے کا ‘‘۔۔۔فلاں ٹوتھ پیسٹ مسوڑوں کو بنائے زیادہ اسٹرانگ اور دانتوں کو کرے زیادہ وہائٹ۔۔۔فلاں ڈائی پر نمی کو زیادہ ابزورب کرکے بچوں کو نیپی کے ریش سے رکھے محفوظ ۔۔۔فلموں کے ڈائیلاگز بھی مکس سے ہوگئے ہیں۔۔۔یو آل بوائز آر سِک ‘تم سب مرد ایک ہی جیسے ہوتے ہو ۔۔۔میری ممی کے میرے فادر سے ڈائیوورس کے بعد اب ہم سیپریٹ رہتے ہیں ۔۔۔۔اسی طرح سے ٹی وی اینکرز اردو کی واٹ لگارہے ہوتے ہیں۔۔ناظرین سنڈے مارننگ میں ایک سیاسی جماعت کے کچھ ممبران نے دوسری جماعت کی سیاسی گیدرنگ پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں فائرنگ اور بھگدڑ سے پانچ افراد ہلاک اور دس زخمی ہوگئے ڈیڈ باڈیز کو سپتال پہنچادیا گیا ہے جبکہ زخمی فرسٹ ایڈ کی فراہمی کے بعد اپنے گھرجاچکے ہیں دو افراد زیادہ انجرڈ ہیں جنہیں آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا ہے۔۔۔کرکٹ کی کمنٹری بھی اس کا شکار ہوگئی ہے،جو کچھ اس طرح سے ہوگئی ہے۔۔شاہد آفریدی کا پہلا اوور ہے اور وہ پہلی بال ڈلیور کرنے کیلئے تیار ہیں شاہد آفریدی نے دوڑناشروع کیا ، رائٹ ہینڈ میں موجود بال کو اپر ہینڈ کو یوز کرتے ہوئے گھماکر وکٹ کی جانب پھینکا بیٹمسین نے آگے نکل کر پاور فل اسٹروک لگانے کی ٹرائی مگر بیٹ ہوئے اور بال سیدھی وکٹ میں جاپہنچی ۔۔واؤ، واٹ اے بال۔۔ بولڈ کردیا ۔۔۔ شاہد آفریدی ونس اگین گین سکسیز،پاکستانی کیپٹن کا اس کروشل ٹائم میں شاہد آفریدی کو سامنے لانے کا ڈسی جن بالکل کریکٹ رہا اور اس وکٹ کی مدد سے پاکستان ریٹرن ان میچ ہوچکا ہے۔

اردو زبان سے محبت کرنے والی دو سہلیوں کی آپس میں گفتگو سنی ۔۔ایک کہہ رہی تھی۔۔ یو نو مجھے اردو بہت پسند ہے آئی لو اردو ۔۔دوسری نے کہا۔۔ یس تانیہ آئی نو, مجھے بھی اردو بہت پسند ہے ،آفٹر آل یہ ہماری لینگویج ہے، میں تو ہمیشہ ٹرائی کرتی ہوں کہ اپنے گھر میں، بچوں اور ہسبینڈ کے ساتھ بھی اردو میں ہی بات کروں۔۔پہلی بولی۔۔ سیم ہیر، میرے بچے لائیک کرتے ہیں اردو میں بات کرنا۔۔دوسری نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔۔یا اٹس فنٹاسٹک لینگویج۔۔ پہلی کو اچانک کچھ یاد آیاکہنے لگی۔۔ یار ایک امیزنگ واقعہ سنو۔۔آج میں پریزڈنٹ (صدر) بازار میں ایک کتے کو دیکھا جس کی لینگویج پیاس کی وجہ سے باہر نکلی ہوئی تھی۔۔گلابی اردو اور گلابی انگریزی، بلکہ زخمی انگریزی بول بول کر خود کو مصیبت میں ڈالے رکھتے ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم بچوں کے ساتھ ہوتاہے، ایک تو ہمارا نظام تعلیم ایسا ہے کہ پنجاب میں نرسری کا بچہ ہمہ وقت یہی سوچتا رہتا ہے کہ والد ’’بوہا‘‘ کہتے ہیں، والدہ ’’دروازہ‘‘ کہتی ہیں اور اسکول والے ’’ڈور‘‘ پڑھاتے ہیں۔

بچہ پیدا ہونے کے پانچ سال بعد ایک دن اچانک ماں کو احساس ہوا کہ ’’یہ بچہ ہمارا نہیں لگتا، کیوں نہ اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے‘‘۔ شام کو اْس کا شوہر تھکا ہارا ڈیوٹی سے گھر واپس آیا تو اس نے اپنے خدشے کا اظہار اْس سے بھی کیا ’’دیکھو! اِس بچے کی عادتیں بہت عجیب ہیں۔ اِس کا دیکھنا، چلنا، کھانا، پینا اور سونا وغیرہ ہم سے بہت مختلف ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ ہمارا بچہ ہے، چلو اِس کا ڈی این اے ٹیسٹ کراتے ہیں‘‘۔شوہر نے کہا۔۔بیگم! تمہیں یہ بات آج اچانک 5 سال بعد کیوں یاد آگئی؟ یہ تو تم مجھ سے 5 سال پہلے بھی پوچھ سکتی تھیں۔۔بیگم حیران ہوگئی کہنے لگی۔۔کیا مطلب تم کہنا کیا چاہتے ہو؟۔۔شوہر نے کہا۔۔بیگم یاد کرو اسپتال کی وہ پہلی رات جب ہمارا بچہ پیدا ہوا تھا اور کچھ ہی دیر بعد اس نے پیمپر خراب کردیا تھا، تو تم ہی نے مجھے کہا تھا، ’اے جی سنیے! پلیز بے بی کو چینج تو کردیں‘، تب میں نے بڑی حیرانگی سے تمہاری طرف دیکھا تھا تو تم نے ہی کہا تھا ’ہمارے پیار کی خاطر۔ میں نے 9 مہینے اِسے اپنی کوکھ میں رکھا ہے، اور اب جبکہ میں ہل جل بھی نہیں سکتی تو کیا آپ یہ چھوٹا سا کام بھی نہیں کرسکتے؟‘ تب میں اپنے بچے کو اْٹھا کر دوسرے وارڈ میں گیا، وہاں اپنے گندے بچے کو ’’چینج‘‘ کرکے دوسرے صاف بچے کو اْٹھا کر تمہارے ساتھ لا کر سلادیا تھا۔۔واقعہ کی دُم:کسی کو کام بتاتے وقت اگر اپنی مادری زبان کے بجائے دوسری زبان کا استعمال کریں گے تو ایسا ہی ’’چینج‘‘ آئے گا۔

چلتے چلتے آخری بات۔۔ ہمارے تمام کالم اردو میں ہوتے ہیں،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں English not come to me۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں