تحریر: شوکت علی مظفر
موجودہ نسل کو انگلش لینگویج کے ساتھ ساتھ” اُردولینگویج” کا کورس بھی کرلینا چاہئے۔
اُردو کے ساتھ سرعام زیادتی ہوتا دیکھ کر اُتنا ہی افسوس ہوتا ہے جیسے کسی فلم میں کوئی لڑکی عزت لٹوا کر آنے کے بعد دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی ہوجاتی ہے ۔ گھر کا کوئی باسی اُسے اس حالت میں دیکھ کر تسلی دینے کیلئے ہاتھ لگاتا ہے اور وہ دھڑام سے وہی گر کر خالق حقیقی سے جا ملتی ہے۔
چند ایک عاشقانِ اُردو زبان و بیان کی آبیاری کیلئے اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن نگوڑے فیس بُک کے سستے اشتہارات نے تو رہی سہی اُردو کی مت مار رکھی ہے۔ ہیئر آئل کے دو لائنوں کے ایک اشتہار میں اتنی غلطیاں دیکھ کر بندہ سوچتا ہے ان کو اسی ہیئر آئل میں ڈبو ڈبو کر ماردیا جائے جس کا اشتہار انہوں نے جاری کیا ہے جس میں حل کو ”ہل”جڑ کو”جھڑ”روکتا ہے کو ”روکھتا” لکھ مارا۔ یہی نہیں نیو ٹی وی کے ایک ویڈیو کے ٹائٹل میں بھی جعلی عامل کی جگہ ”جالی عامل” لکھا دیکھا ہے۔ اور جیو کا ”کتا، بچہ” بھی سب دیکھ چکے ہیں۔
لیکن مَلک کہتا ہے کہ اگلا دور اُردو دانوں کا ہے۔ کیونکہ انگریز بولنے سمجھنے والے تو اینٹ اُٹھائو نکل آتا ہے لیکن بہتر اُردو لکھنے ، بولنے والا چراغ لے کر نکلو تب کہیں ملتا ہے۔ جب کوئی چیز ایسی نایاب ہوجائے تو اُس کی قیمت خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ خدا کرکے ایسا ہی ہو، ورنہ تبدیلی کے نام پر قوم نے بڑے دھوکے کھائے ہیں!!(شوکت علی مظفر)
(شوکت مظفر کی وال سے اڑائی ایک دلچسپ تحریر)