تحریر: رضاعلی عابدی
پندرہ بیس برس اُدھر کی بات ہے، ہم نے اپنے بی بی سی کے زمانے میں ایک سروے کیا اور زبان کے اکابرین سے پوچھا کہ آپ کو اردو کا مستقبل کیسا نظر آتا ہے۔ ہمارے دوست غازی صلاح الدین کے جواب پر بات آن کر ٹھہری۔انہوں نے کہا کہ اب تو پنجاب طے کرے گا کہ اردو کا مستقبل کیسا ہوگا۔
اُس زمانے کے رویوں میں غازی کی بات بالکل بر محل اور با موقع لگی لیکن وقت نے جو کروٹیں بدلیں تو بات کہیں کی کہیں جاپہنچی۔ اکیسویں صدی شروع ہوئے بیس برس ہونے کو ہیں ۔ آج میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اردو زبان کا کیا حشر ہوگا، یہ فیصلہ آج کے ماحول پر چھا جانے والا ٹیلی وژن کرے گا۔ اخبار ختم ہونے کو ہیں، رسالے بند ہوئے جاتے ہیں، ریڈیو چپ سادھ رہا ہے، اب لے دے کر جو کچھ ہے وہ ٹیلی وژن ہے۔ صبح بھی، بھری دو پہر میں بھی اور رات کے سنّاٹے میں بھی جو بولے جارہا ہے، اپنی بات کہے جارہا ہے وہ ہمارا ٹیلی وژن ہے۔ حالات حاضرہ کے ٹاک شو سے لے کر چالیس چالیس قسطوں میں چلنے والے ڈراموں تک، جوآوازیں، جو لفظ، جو محاورے، جو ترکیبیں ، جوکہاوتیں اور سب سے بڑھ کر جو تلفظ مسلسل ہمارے کانوں میں انڈیلے جارہے ہیں وہی طے کریں گے کہ آگے چل کر زبان کی کیا شکل نکلے گی۔ آگے کا حشر تو خیر آنے والی نسلیں دیکھیں گی، ہم جو آج کے لوگ ہیں، دیکھ رہے ہیں کہ اردو کا چہرہ مسخ ہو رہا ہے۔ زبان کا بگاڑ زور پکڑ رہا ہے، لوگ خدا جانے کہاں کہاں سے کیسی کیسی ترکیبیں اور روز مرہ اور محاورے اٹھا کر لارہے ہیں کہ یوں لگے ہے جیسے ریل گاڑی اپنی پٹری سے اتر جائے مگر پھر بھی چلتی رہے۔ زبان اپنے اصل ٹریک ،اپنی اصل روش سے اتر کر کچی پکی زمینوں پر دوڑی چلی جارہی ہے۔ اس میں کچھ دخل اوروں کا اور کچھ ہمارا اپنا ہے۔ شاید میری اس بات سے اتفاق نہ کیا جائے مگر طے ہے کہ سرحد پار کا ٹیلی وژن نہ صرف دیکھا جارہا ہے بلکہ اس کے اثرات ہمارے لب و لہجے اور زبان کے رکھ رکھاؤ میں سرایت کررہے ہیں۔
پہلے تو ہماری اردو پر ’ حوالے سے‘ کا عذاب نازل ہوا۔ لوگوں نے ہر بات میں ’حوالے سے ، حوالے سے‘ کی تکرار شروع کی۔ یہ تکرار اتنی بڑھی کہ بدقسمتی سے یہ بری لگنا بند ہوگئی۔ میں حلفیہ کہتا ہوں کہ ایک روز باتوں باتوں میں اتفاقاً میں بھی ’حوالے سے‘ کہتے کہتے رہ گیا۔کہہ دیتا تو خود کو تھپڑ ضرور مارتا۔ حالت یہ ہوئی کہ ایک موقع پر مجھے کہنا تھا کہ فلاں بات میں مستند کتابوں کے حوالے سے کہہ رہا ہوں، میں نے اپنی بات کو بریک لگایا اور اپنا جملہ بڑے جتن کر کے اس طرح وضع کیا کہ اس میں سے یہ کاٹ کھانے والا لفظ نکل جائے۔میری زبان پر جو تازہ عذاب نازل ہوا ہے اس کا احوال بھی سن لیجئے۔ اب کاہے کی تکرار ہے؟ ’لے کر۔ لے کر‘۔ اس مسئلے کو لے کر ، اس موضوع کو لے کر، اس عنوان کو لے کر، اس فیصلے کو لے کر۔غرض سارا زور اس بات پر صرف کردیتے ہیں کہ کہیں ’ بارے میں، مسئلے سے متعلق، معاملے پر‘ نہ کہہ دیں۔ ایک چینل پر ایک اینکر پرسن نہ صرف لے کر لے کر کی رٹ لگاتی ہیں بلکہ وہ مسئلے کو بھی مُدّا (مدعا) کہتی ہیں۔ اس مُدّے کو لے کر۔ کان چونکہ اس لفظ کے عاد ی نہیں، مُدّے کو مردہ سنتے ہیں ۔ گھبرائیے نہیں۔اور ہزار پانچ سو بار سنیں گے تو یہ مردہ جی اٹھے گا۔(اس پر کسی دواخانے کا ایک اشتہار یاد آتا ہے)۔
زبان ہی کے تعلق سے ایک اور بات خلش بن کر چبھنے لگی ہے۔ کچھ لوگوں نے عجب ڈھنگ نکالا ہے۔ ان کے منہ سے خ کی آواز نہیں نکلتی اور اس کی جگہ و ہ ح کی آواز نکالنے لگے ہیں۔ مثلاً خیر ات کو وہ حیرات اور خبر کو حبر کہنے لگے ہیں۔ اول تو وہ خیر خواہ جیسے پاکیزہ لفظ سے واقف ہی نہ ہوں گے لیکن وہ وقت دور نہیں کہ اگر کہا تواس کو بھی ’حیر حواہ ‘ کہیں گے۔
آخر میں ہر گلی کوچے میں ہونے والی کانفرنس اور میلے والوں سے یہ التماس کروں گا کہ ان تقریبات کو سود مند او رنتیجہ خیز بنانا ہے تو جدید فکشن او رشاعری پر جتنی فکر انگیز گفتگو چاہے کریں لیکن ایک بار جی کڑا کرکے اس سوال پر سر جوڑ کر بیٹھیں کہ زبان کے بگڑتے ہوئے حلیے کو کیا اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے ، کیا اردو کا چہرہ مسخ ہوتا تو ہوا کرے، ہم اس طرف سے نگاہیں پھیر لیں یاسنجیدگی سے سوچیں، غور کریں، دماغ کھپائیں اور کچھ ایسی راہیں نکالیں کہ یہ پھول کی پتّی جیسی زبان، شمع کی لو جیسی زبان، باد سحر کے دھیمے سے جھونکے جیسی زبان، یہ پہلے چھینٹے کی مہک جیسی زبان ،کہیں اس کی بے بہا خوبیاں وقت کے بے رحم دھارے میں نہ بہہ جائیں۔ سوچئے، سوچنے کا کوئی مول نہیں۔۔(بشکریہ جنگ)۔