تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، ہمارے خیال میں نوجوان نسل ”کچومر“ سے واقف نہیں ہوگی،ان کی مختلف قسم کے ”سلاد“ سے کافی اچھی علیک سلیک ہوگی۔۔ہم جس زمانے میں جنم لئے تھے وہ بھٹو دور تھا، ضیاالحق کے دور تک ہمیں کھانے کے ساتھ کٹی ہوئی پیاز،ٹماٹرساتھ میں کچھ ہری مرچیں اور اوپر سے لیموں کا ٹکڑا چھڑک کردیاجاتا تھا، جسے ”کچومر“ کہاجاتا تھا۔۔یہ ہندی سے آیا ہوا اسم ہے۔۔اردو کا ایک مشہورمحاورہ ہے، کچومر نکال دینا، جیسے ہم آپ سے کہیں کہ آپ نے تو اس کا کچومر ہی نکال دیا۔۔ تو سمجھ جائیں کہ آپ نے اسے پاش پاش کردیا، ٹکڑے ٹکڑے کردیا یا پھرکچومر نکالنا زیادہ آسان ہے۔۔
اگر آپ اور ہم اپنے اطراف کا جائزہ لیں، مشاہدہ اور مجاہدہ کریں تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہم لوگوں نے اردو کا کچومر نکالنا شروع کردیا ہے۔۔ممی ڈیڈی گھروں میں اردو کی زیادہ ٹانگ مروڑی جاتی ہے۔۔بیٹا آپ جلدی سے سوپ سے ہینڈ واش کرکے آؤ۔۔ہری اپ۔۔بیٹا بھی آگے سے کہتا ہے۔۔یس ماما، ابھی واش کرکے آیا۔۔جب ان سے شکوہ کرو کہ اردو کو فوقیت دیں تو آگے سے جواب ملتا ہے۔آپ کو پتا ہے آج کل کمپیٹیشن بہت بڑھ گیا ہے،آپ کیا بیک ورڈ باتیں کرتے ہیں،ہم تو سوچ رہے ہیں ایبراڈ چلیں جائیں،بچوں کی انگریزی مزید امپروو ہوجائے گی۔۔اگر بچوں سے گھر میں انگریزی میں ڈسکشن نہ کی جائے تو لوگ الیٹریٹ سمجھتے ہیں۔۔ہماری فیملی تو ون ٹو آل سب انگریزی ہی بولتے ہیں۔۔تقریبات میں جائیں تو مائیں اور باپ اپنے بچوں سے فوری کہتے دکھائی دیتے ہیں۔انکل کو پوئم سنائیں۔اسی طرح ایک محفل میں کینیڈا پلٹ شادی شدہ خاتون اپنے تین سالہ بچے کو ”زانی“ کہہ کرپکاررہی تھیں، جب بچے کا اصل نام پوچھاتو پتہ لگا۔۔ذہین احمد نام ہے۔۔ ہم نے خاتون کو جب زانی کاانگریزی میں مطلب سمجھایاتو ان کے چہرے کا رنگ اڑا اڑا سا محسوس ہونے لگا۔۔آج کل کے لوگوں بالخصوص متوسط طبقے کی خواتین کو خبط ہوگیا ہے کہ ان کے بچے اور وہ فرفر انگریزی بولتے نظر آئیں۔ ان کا احساس کمتری اتنا بڑھ چکا ہے کہ ان کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس طرح کی انگریزی بولتے ہوئے کتنی مضحکہ خیز لگ رہی ہوتی ہیں۔
یہ تو انگریزی بولنے والوں کی احساس کمتری کی کچھ باتیں تھیں، اب جو خالص اردو پر ہی انحصار کررہے ہیں وہ بھی اس کا کچومر بنانے میں کسی سے کم نہیں۔۔اب ”جانِ من“ جیسے لفظ کو ”جانے من“ لکھنے سے بڑی جذباتی توہین بھلا اور بھی کوئی ہوگی؟، سرے دست (سرِ دست) شانے شہر (شانِ شہر) بارے گراں (بارِ گراں)، فخرے قوم (فخرِ قوم) وغیرہ اس کی عام مثالیں ہیں۔لوحِ قلم کو”لوہے قلم“ لکھنے کا لطیفہ توکچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہواتھا۔۔ ہم ”سوہانِ روح“ لکھتے ہوئے ”سُہانے“ لکھ جاتے ہیں۔ اب اس سے زیادہ بھلا اردو کی توہین اور کیا ہوگی کہ جب دیوانِ غالب’کو بھی ”دیوانے غالب“اورآبِ حیات کو ”آبے حیات“لکھ دیں؟ہم قاری کو ’‘کاری“ بولتے ہیں، تو اسے ”کاری“ ہی لکھ کر اردو پر کاری وار کرجاتے ہیں۔ اسی طرح بقرعید کو ”بکرا عید“ مقرر کو مکرر اور لائق کو”لائک“ کردینا معمول ہے۔ملتے جلتے الفاظ دیکھئے تو صرف گول ”ہ“ اور حلوے والی ”ح“ کے فرق سے ”صلہ“ اور”صُلح“کی تمیز ہی نہیں رکھی جاتی۔ کسی نے تو صلہ کو بھی”سلا“ لکھ کر اپنی زبان کی اور بھد اڑائی!یکساں آواز اور مختلف املا والے الفاظ کا کیا رونا روئیں،ہمارے ایک شاعر دوست نے ہمیں کتاب ”نظر“کی تو ان کی اردو کو ہماری نظر لگ گئی۔۔ اسی طرح عَلم (پرچم) اور اَلم (غم)، ہامی (اقرار) اور حامی (حمایت کرنے والا)، سہی (آؤ تو سہی، جاؤ تو سہی میں برتا جاتا ہے) اور صحیح (دُرست)، سطر (ایک لائن) اور ستر (جسم کا چھپائے جانے والا حصہ)، ظن (گمان) اور زن (عورت) سے لے کر سورۃ (کلام پاک کا 114 حصوں میں سے ایک حصہ) اور صورت (چہرہ) کی تمیز نہ سمجھنا،اردو کا کچومر نکالنے کے مترادف ہے۔ سنبھل کو سمبھل، انبالہ کو امبالہ، اچنبھے اچمبھے وغیرہ۔ بہت سے اچھے لکھنے والے بھی مسجد کے منبر کو ممبر (Member) لکھتے ہیں۔ ”دنیا و مافیہا“(یعنی دنیا اور جو کچھ اس میں ہے) کو انگریزی اصطلاح ’مافیا‘ Mafia لکھنے لگے کہ ”دنیا و مافیا“!ایک ادیب نے توسماں (منظر) کو”سماع“ (قوالی) لکھ ڈالا، فعل (کام) کو فیل Fail (ناکام) جاناں کو ”جانا“ پگھلا کو ”پگلا“ لکھاجارہا ہے۔دانہ (غلے کا بیج) اور دانا (عقل مند)، گلہ (شکایت) اور گلا (گردن)، پیسا (پسائی) اور پیسہ (ہمارا سکہ) وغیرہ جیسے الفاظ کے آخر میں اگر ”ہ“ اور”الف“ کا فرق بھلا دیں، تو سوچئے کہ کیا اردو کا کچومر نہیں بنے گا؟؟ اب تو لوگ چودہ طبق کے بجائے ”چاروں طبق روشن ہونا“ کہتے ہیں۔ طوفانِ بدتمیزی کو ”طوفانی“ بدتمیزی اور یہاں تک کہ رئیس امروہی کو رئیس ”امر، وہی“ بھی کہنے لگے ہیں۔ گُل دستے (جس کے معنی ہی پھولوں کا مجموعہ ہے) کو ”پھولوں کا گل دستہ“تو ایک عرصہ پی ٹی وی کے خبرنامہ میں چلتا رہا۔
آج کل کے بچوں سے کلرز(رنگوں) کے نام پوچھیں تو جتنے بتائیں گے انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”آب گم“ سے ایک اقتباس نقل کیا تھا جس میں انھوں نے رنگوں کے وہ قدیم نام گنائے تھے جو ہماری زبان سے تیزی سے متروک ہو رہے ہیں۔ یوسفی صاحب نے لکھا تھا،۔۔”افسوس! ہمیں احساس نہیں کہ ہماری ہاں رنگوں کے قدیم اور خوبصورت نام بڑی تیزی سے متروک ہورہے ہیں۔ کل انھیں کون پہچانے گا۔“شَنگرَفی، مَلاگیِری، عُنابی، کپاسی، کبُودی، شُتُری، زَمَرُّدی، پیازی، قِرمِزی، کاہی، کاکریزی، اَگرئی، کاسنی، نُقرَئی، قَناوِیزی، موتیا، نِیلوفَری، دھانی، شَربَتی، فالسئی، جامنی، چمپئی، تربوزی، مٹیالا، گیروا، مونگیا، شہتوتی، تُرنجی، انگوری، کِشمشی، فاختئی، پستئی، شَفتالُو، طاؤسی، آبنُوسی، عُودی، عَنبری، حِنائی، بنفشئی، کُسمبری، طُوسی، صُوفیانہ اور سُوقیانہ۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔وہ احباب جو چاہتے ہیں کہ ان کی تحریروں میں سے، ان کی زبان میں سے غلطیاں دور ہو جائیں اور اردو پر دسترس حاصل ہو، ان کے لئے خاکسار کا مشورہ ہے کہ۔۔ چوتھی جماعت کی ”کتابِ اردو“ اور ”قواعد اردو“ خرید لیجیے اور سبقاً سبقاً پڑھیے۔ مشقیں حل کیجیے اور بالترتیب آگے بڑھتے جائیے۔ پانچویں، چھٹی، ساتویں۔۔بارہویں جماعت تک۔آپ کی اردو نہ صرف پختہ ہوگی بلکہ قواعد بھی ازبر ہوجائیں گے۔ مذکر و مؤنث کی غلطیوں سمیت الفاظ کی دیگر غلطیاں بھی اڑان بھر کر غائب ہو جائیں گی۔ اب اگر آپ کو قلتِ وقت کا سامنا ہے یا کم وقتی کا بہانہ یا پھر سستی کے گھوڑے پر سوار ہیں تو اطمینان رکھیے، اردو ٹھیک نہیں ہوگی بلکہ غلطیاں مزید پختہ ہوتی جائیں گی اور آپ اردو کا اسی طرح کچومر نکالتے رہیں گے۔۔