تحریر: وجاہت مسعود
ہم میں سے کون ہے جو آرٹ بکوالڈ کو نہیں جانتا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی صحافت میں نصف صدی تک آرٹ بکوالڈ کا نام گونجتا رہا۔ نیویارک کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والے آرٹ بکوالڈ کا کالم بیک وقت 500اخبارات میں شائع ہوتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے جملے، بظاہر راہ چلتے میں اٹھائے گئے موضوعات مگر چونکا دینے والا بیان اور دل کو لگتے ہوئے نتائج۔ وہ طنز کے نوکیلے نشتروں پر مزاح کی شکر چھڑک دیتا تھا۔ آرٹ بکوالڈ نے اس قدیم کائناتی سچائی کو بیسویں صدی کی لغت بخشی کہ ہم سب انسان کسی نہ کسی درجے میں احمق ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ کہ ہر حکومت بہت سی حماقت کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ملک عزیز کو بھی انسانی حماقت کے وسیع ذخائر سے نوازا ہے۔ گویا زر و جواہر کے ڈھیر سینہ خاک پہ بے مول بکھرے ہیں۔ کوئی نہیں کہ انہیں نوک قلم سے ایک لڑی میں پرو لے کہ جس کے دیکھنے سے دلوں کے خرابے روشن ہوں۔
اس غفلت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم کھوکھلی سنجیدگی کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ ہزاروں برس پہلے یونان کے فلسفیوں نے یہ نکتہ سجھایا تھا کہ حماقت، منافقت اور دھوکے کو سنجیدگی کے مکھوٹے کا سودا لاحق ہوتا ہے۔ بادشاہ لوگ، مذہبی پیشوا، دولہا اور سپہ سالار مسکرایا نہیں کرتے۔ ہنسنا تو بہت دور، مسکراہٹ کو بھی اپنی بلند مقامی سے نیچے خیال کرتے ہیں۔ معصوم بچوں کو دیکھیے، محبت کرنے والوں پر ایک نظر ڈالیے، زندگی کے احسان پر تشکر میں ڈوبے کسی بوڑھے چہرے کا تصور کیجئے، دھیمی مسکان کی ایک دائمی لکیر کا خیال آتا ہے۔ مسکراہٹ تحفظ، احترام، اعتماد اور نظر کی وسعت کا نشان ہے۔ سنجیدگی کے شکنجے میں کسے ہوئے چہرے داخلی کشمکش، احساس کمتری، سازش اور اپنے حصے سے زیادہ غصب کرنے کی سوچ تلے دبے ہوتے ہیں۔ ایک فرق البتہ کرنا چاہئے۔ خوش دلی احساس ذمہ داری سے خالی نہیں ہوتی لیکن ذمہ داری، ضمیر کی آواز اور فرض کی پکار کو خوش دلی سے تسلیم کرنا بذات خود عقل مندی کا اشارہ ہے۔
نام گنوانے میں کچھ قباحت ضرور ہوتی ہے۔ تاہم یہ خطرہ مول لے کر سوال کرتا ہوں کہ آپ نے باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ میں سے کس کے چہرے پر زیادہ مسکراہٹ دیکھی؟ ہمسایہ ملک میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے دو نام دیکھیے۔ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی۔ آپ ہی بتا دیجئے کہ دونوں میں سے کس کے چہرے پر مسکان بھیتر کی شانتی سمان اترتی تھی؟ حفیظ جالندھری اور فیض احمد فیض کو عمر کے کچھ فرق کے ساتھ ایک ہی زمانہ ملا۔ کسی بزرگ ادیب سے دونوں کی مزاجی کیفیت کا فرق پوچھ لیجئے گا۔ ہم عصر ملکی سیاست میں پرویز رشید اور قمر زمان کائرہ ہی کو لیجئے۔ کڑے سے کڑے حالات اور سخت سے سخت سوال کے جواب میں دونوں رہنماؤں کے تاثرات دیکھ لیجئے۔ بادل کی ٹھنڈک جیسی یہ مسکراہٹ ان دو رہنماؤں سے مخصوص نہیں، ہمارے پختہ کار جمہوری قافلے میں مسکراہٹ کی یہ روایت آج کے نوجوان رہنما بلاول بھٹو تک چلی آتی ہے۔ دوسری طرف ایسی فہرست بھی موجود ہے جن کا انتخابی نشان اعصابی تشنج ہے۔ سیاست ہی پر کیا موقوف، ہماری صحافت میں ان شہسواروں کی طویل فہرست موجود ہے جو ہمہ وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار کاٹھ کی تلوار سے مفروضہ دشمنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ بحر ظلمات کے اس رسالے کی صف بندی موقع شناس ہے۔ استدلال میں وہی خروش، لفظوں کی سنگ باری میں وہی جنون، آنکھ سے برستے غضب کے شعلوں میں تندی کا تناؤ برقرار، لیکن موسم بدلتا ہے تو حملے کی سمت بدل لیتے ہیں۔ میدان رستا خیز البتہ وہی رہتا ہے جہاں ابنائے وطن ہی کشتگان ستم ٹھہرتے ہیں اور اہل غرض مرادیں پاتے ہیں۔
ایک مدت سے دل مچلتا تھا کہ کاش اردو صحافت کو بھی کوئی آرٹ بکوالڈ ملے۔ پڑھنے والوں کو مژدہ ہو کہ بالآخر وطن عزیز میں ایک آرٹ بکوالڈ پیدا ہو گیا ہے۔ معمولی سا فرق البتہ موجود ہے جو امریکہ کے آرٹ بکوالڈ اور مقامی آرٹ بکوالڈ میں بہرصورت موجود رہے گا۔ برادر صحافی کو پھبتی، ضلع جگت، ہزل، پھکڑ اور تمسخر کے جملہ آلات کشاورزی میں مہارت تامہ حاصل ہے۔ روئے سخن البتہ جگر فگاروں کی طرف رہتا ہے۔ ملک میں اخلاقی دیوالیہ پن کا ایک سانحہ گزرا ہے۔ ایوان بالا میں چودہ بندگان عالی نے پردے کی اوٹ میں ضمیر فروشی کی ہے۔ حمیت کے بحران میں ایک نیا باب ایزاد کیا ہے۔ گراوٹ کے نئے معنی دریافت کئے ہیں۔ مقامی آرٹ بکوالڈ نے اس حادثے پر مزے کا ایک کالم باندھا ہے۔ اللہ اللہ رے، طبیعت کی روانی اس کی۔ لطف لے لے کر جمہوریت پر چوٹیں کی ہیں۔ غور کا مقام یہ ہے کہ ضمیر بیچنے والوں سے کوئی گلہ ہے اور نہ ضمیر خریدنے والوں کی نشاندہی کا یارا۔ اس المیہ حکایت کو تو اہل اقتدار کی ہنر مندی اور چابکدستی کا شاہکار ٹھہرایا ہے۔ قادر الکلامی کے جوہر البتہ ان خاک نشینوں پر ارزاں کئے ہیں جن کے پرچم پر میر جعفر، میر صادق، الہیٰ بخش اور حکیم احسن اللہ کی دریدہ دہنی کا تھوک جم گیا ہے۔ زور آوری کے قصیدے کی اس تشبیب پر ہمارے مقامی آرٹ بکوالڈ نے عنوان باندھا ہے کہ ہماری کوئی برانچ نہیں ہے۔ صاحب برانچ تو ان کی ہوتی ہے جن کی کوئی دکان ہو۔ ہماری سیاست کے بازار میں تو دست فروشوں کا سکہ چل رہا ہے۔ فارسی زبان میں دست فروش اس پھیری والے کو کہا جاتا ہے جو اپنی جنس فروخت ہاتھ پر رکھ کے سر بازار کھڑا ہوتا ہے۔ اس ملک کے رہنے والے دیکھ رہے ہیں کہ سیادت کے دعوے دار ہاتھ بھر کی چوب خشک پر موتیے کے ہار لٹکائے گردش میں ہیں۔ ہو کوئی مشتری تو دے آواز۔۔(بشکریہ جنگ)