تحریر: امجد اسلام امجد
بظاہر بہت عجیب بات لگتی ہے کہ صرف سات فیصد لوگوں کی مادری زبان کسی ملک کی قومی زبان ہو جب کہ اردو ہماری صرف قومی ہی نہیں بلکہ رابطے اور مشترکہ تہذیب کی زبان بھی ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام علاقائی زبانیں بھی مختلف اعتبار سے قومی زبانوں کا درجہ رکھتی ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ تاریخی، لسانی، تہذیبی اور سیاسی ہر حوالے سے اردو ہی ایک ایسی زبان ہے جس کو تمام پاکستانی اگر روانی سے بول اور پڑھ نہ بھی سکتے ہوں تاہم سمجھتے ضرور ہیں۔
اس کا رسم الخط ہو یا تہذیبی سرمایہ، استعارے ہوں یا تلمیحات، علاقائی رشتے ہوں یا تاریخی روابط ، ہر اعتبار سے یہ بالخصوص شمالی ہندوستان میں بولی اور سمجھی جانے والی سب سے بڑی اور مقبول ترین زبان ہے مگر لطف اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عالمی زبانوں کے برعکس نہ تو اس کا کوئی مخصوص علاقہ ہے، نہ قوم، نہ جغرافیائی خطہ اور نہ ہی کوئی ایسا تاریخی اور تہذیبی پس منظر کہ جو لسانی اعتبار سے اسے کوئی مضبوط اور غیر مشروط قسم کی بنیاد فراہم کرتا ہو۔ مگر اس کا کمال یہ ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود یہ اس وقت دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں کی فہرست میں انگریزی اور چینی زبان کے دوش بدوش کھڑی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد دنیا کی کل آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے دوسو سے زیادہ ممالک میں فی الوقت ہزاروں کے حساب سے چھوٹی بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اسکرپٹ یعنی رسم الخط کے اعتبار سے بھی اس کا شمار دنیا کی پہلی بیس زبانوں میں ہوتا ہے۔
جہاں تک اس کے ہماری قومی زبان ہونے اور اس سے متعلقہ مسائل کا تعلق ہے ان کی تفصیل بہت پیچیدہ بھی ہے اور افسوسناک بھی کہ اگر سقوط ڈھاکا سے قبل کے 24 برسوں کو علاحدہ بھی کردیا جائے کہ اس وقت وطن عزیز کی آدھی آبادی ایک اور زبان یعنی بنگالی بھی تحریر اور تقریر دونوں حوالوں سے برابر کی سطح پر استعمال کرتی تھی۔ تب بھی 1973ء کے آئین کے مطابق اسے پندرہ برس میں قومی، دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر نافذ ہوجانا چاہیے تھا جب کہ صورتحال یہ ہے کہ آج اس مدت کو ختم ہوئے بھی تیس برس ہوچلے ہیں مگر معاملہ وہیں کا وہیں ہے۔ انور مسعود نے اس صورتحال پر بہت سے قطعات لکھے ہیں جو اس کی بیان کردہ مزاح کی تعریف پر سو فیصد پورے اترتے ہیں کہ قہقہہ وہ ہے کہ جب اسے نچوڑا جائے تواس میں سے آنسو ٹپک پڑیں۔
گزشتہ دنوں مجھے اس حوالے سے ایک ٹی وی چینل پر ہونے والے مذاکرے میں شرکت کا موقع ملا جس میں میرے ساتھ ارشاد عارف، اظہار الحق اور اوریا مقبول جان بھی شامل تھے جو چند باتیں زیادہ ابھر کر سامنے آئیں اگرچہ وہ نئی نہیں ہیں اور ان پر بہت کچھ لکھا اور کہا بھی جاچکا ہے مگر اصل مسئلہ ان کو جوڑ کر دیکھنے اور اس ملاپ کے رستے میں آنے والی رکاوٹوں کا ہے۔
جدید دور میں زبانوں کی زندگی اور طاقت کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان کو پرائمری کی سطح سے بطور ذریعہ تعلیم استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ روزمرہ کی زندگی، قوانین، حکومتی کاروبار اور مراسلات کی زبان بنایا جائے اور ان کے ادب کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ان میں عالمی ادب اور علوم کے تراجم کیے جائیں اور یہ کہ ان کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں حصہ دار بنایا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قومی زبان کو وہ عزت دی جائے جس کی یہ صحیح معنوں میں حق دار ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ عدالتوں میں زیادہ تر بحث اردو میں ہوتی ہے مگر فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر مریض سے تشخیص تو اردو میں کرتا ہے لیکن نسخہ انگریزی میں لکھتا ہے اور تو اور 95% شادی کارڈ تک انگریزی میں چھپتے ہیں جب کہ بیشتر کے پڑھنے والے (بعض اوقات دلہا دلہن سمیت) اس زبان کو سرے سے نہیں جانتے۔
برادر اوریا مقبول جان کے بعض خیالات سے اختلاف ممکن ہے لیکن ان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ سول سروس کے امتحانات میں انگریزی زبان کا ناجائز غلبہ اردو کے بطور قومی زبان نافذ نہ ہوسکنے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے کہ یہ امتحان ذہانت سے زیادہ انگریزی دانی کا امتحان بن کر رہ گیا ہے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے والے امیدوار ساری زندگی اپنی اس صلاحیت کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اس تکلیف دہ صورتحال کی ایک اور بڑی وجہ پرائمری جماعتوں میں انگلش میڈیم کا بے جا استعمال اور ثانوی یا مڈل کی سطح پر اردو کی تعلیم سے مجرمانہ غفلت ہے کہ اس اے لیول او لیول کی گھمن گھیری میں ہمارے بچے اردو کے ادب اور تہذیبی پس منظر سے تو کیا۔
اس کے رسم الخط تک سے بھی نہ صرف دور ہوتے چلے جارہے ہیں بلکہ اردو حروف کے بجائے اس کی اصوات سے کام چلانے کے لیے رومن اسکرپٹ کا بے محابا اور گمراہ کن استعمال اس شدت سے کرتے ہیں کہ بعض اوقات وہ اپنا نام تک اردو رسم الخط میں ٹھیک سے نہیں لکھ پاتے۔ کہتے ہیں کہ مرض کی صحیح تشخیص اس کا نصف علاج ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے تشخیص اور علاج دونوں موجود ہیں مگر حاکم طبقوں کے ایک مخصوص رویے کی وجہ سے ان کو بے معنی اور بے نتیجہ بحثوں اور کمیٹیوں کا رزق بنادیا گیا ہے۔ جن باتوں پر اہل علم، ماہرین لسانیات اور اہل فکر و نظر کا عمومی اتفاق ہے ان کی فہرست کوئی بہت زیادہ طویل نہیں۔ ان سفارشات پر صدق دل سے عمل کیا جائے تو ہر سطح پر اردو کا نفاذ نہ صرف ممکن ہے بلکہ فوری طور پر ضروری بھی ہے کہ ستربرس کا طویل عرصہ ہم پہلے ہی ضایع کرچکے ہیں۔
-1 پرائمری جماعتوں میں ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو ہو جس میں حسب ضرورت کسی علاقے میں بولی جانے والی عوامی زبان کے الفاظ بھی استعمال کرنے کی اجازت ہو تاکہ عمر کے ابتدائی حصے میں بچوں کو اشیاء سے متعلق تصورات کی تفہیم میں آسانی ہو۔
-2 انگریزی کو بطور ایک زبان کے پرائمری کی سطح پر پڑھانے میں کوئی حرج نہیں، ہمارے زمانے میں اس کا آغاز چھٹی جماعت سے کیا جاتا تھا، اب اسے مزید کم کرکے چوتھی جماعت تک بھی لایا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے تقریباً سب کے سب عالمی سطح پر مانے جانے والے دانشور اسی نظام تعلیم سے نکل کر آگے آئے تھے۔
-3 آٹھویں جماعت سے آگے پروفیشنل تعلیم کی طرف جانے والے طلبہ و طالبات کے لیے حسب ضرورت تدریس کے دوران انگریزی کا استعمال کیا جاسکتا ہے مگر اسے ذریعۂ تعلیم نہ بنایا جائے۔ البتہ سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر علوم سے متعلق اصطلاحات یعنی Terminology کو ان کی اصل شکل میں پڑھانے میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے تراجم اکثر اوقات زیادہ مشکل ہوجاتے ہیں۔
-4 عدالتی اور سرکاری ہر سطح پر خط و کتابت اور احکام نویسی کا کام اردو میں کیا جائے تاکہ عام آدمی ان کو کسی پیشہ ور ماہر کی مدد کے بغیر براہ راست سمجھ سکے۔
-5 مقابلے کے تمام امتحانات میں انگریزی کی جگہ اردو میں جواب دینے کی سہولت ہو تاکہ حاکم اور افسر کلاس اس کی اہمیت کو بہتر طرح سے سمجھ سکے۔
-6 گفتگو اور تحریر میں انگریزی کے بے جا اور غیر ضروری استعمال سے گریز ضروری ہے البتہ وہ الفاظ اور تراکیب جن کا اردو نعم البدل مشکل ہو ان کے لیے گنجائش رہنی چاہیے کہ اگر یہ دنیا گلوبل ویلج بن رہی ہے تو اس کی کوئی گلوبل زبان بھی ہوگی؟(بشکریہ ایکسپریس)